ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
فاصبر علیٰ مایقولون وسبح بحمد ربک اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے اوپر کی مثال میں اس شخص کا محبوب اس کویہ کہے کہ میاں تم ہم سے دو باتیں کرو ہم کو دیکھو دشمنوں کو بکنے دو جو بکتے ہیں آؤ تم ہم سے باتیں کرو یہ کام کرو وہ کام کرو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو ایسا تسلیہ بذریعہ وحی کے ہوا مگر امت میں اہل اللہ کو اس قسم کے خطابات وغیرہ بذریعہ الہام اور واردات کے ہوتے ہیں اور اس مقام پر لفظ مزمل کی تفسیر سے ایک مسئلہ نکلتا ہے وہ یہ کہ سابقا معلوم ہوچکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چادر اوڑھنے کی وجہ شدت ملال وحزن تھی اس سے ثابت ہوا کہ کامل باوجود کمال کے لوازم بشریت سے نہیں نکلتا جیسا یہاں پر بوجہ تکذیب مخالفین کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مغموم ہونا معلوم ہوتا ہے ہاں اتنا فرق ہے کہ ہم لوگوں کا غم ایسے مواقع پر بوجہ تنگ دلی کا ضعف تحمل کے ہوتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غم بوجہ غایت شفقت اور رحم کے تھا ۔ اپ اس پر مغموم تھے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے تو جہنم میں جائیں گے اس وجہ سے ان پر رحم آتا تھا اور غم پیدا ہوتا تھا چنانچہ ارشاد ہے لعلک باخع نفسک الخ کار پا کاں را قیاس ازخود مگیر گرچہ ماند در نوشتن شیر و شیر مگر یہ تو ثابت ہوا کہ کامل باوجود کمال عرفان کے لوازم طبعی سے نہیں نکلتا اور یہی ہونا بھی چاہیے کیونکہ اگر کسی کو اذیت و مصیبت میں تکلیف جو لازمہ طبعی سے محسوس نہ ہو تو صبر کیسے متحقق ہوگا کیونکہ صبر تو نام ہے ناگوار چیز پر ضبط نفس کرنے کا اور جب کسی کو کوئی چیز ناگوار ہی نہ معلوم ہو تو ضبط کیا کرے گا ۔ غلبہ حال کا کمال نہ ہونا اور ایک مغلوب الحال کی حکایت اور اس کا ناقص ہونا مع دلیل اور مثال البتہ غلبہ حال میں محسوس نہ ہونا اور بات ہے لیکن غلبہ حال خود کوئی کمال کی چیز نہیں ۔ ایک بزرگ کی حکایت ہے کہ بیٹے کے مرنے کی خبر سنی تو قہقہ لگا کر ہنسے اور ادھر آنحضرت کا اپنے بیٹے ابراہیم پر آنسو بہانا ثابت ہے اور یہ فرمانا کہ انا بفراقک یا ابراھیم لمحزونون