ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
یا اس زمانہ کے اولیاء اللہ لیکن دوسری شق میں بھی کچھ فضیلت ثابت نہیں ہوتی تو جب یہ حضرات اپنے کو ایسا (1) کہیں تو ہم کو کیا حق ہے کہ ہم اپنے کو جنید وقت سمجھیں اور اگر جنید ہی سمجھیں تب بھی اپنے کو گنہگار سمجھنا چاہیے ۔ کیوں کہ جنید تو اپنے کو بہت بڑا گنہگار سمجھتے تھے ۔ مگر ہمارا تقوی کچھ ایسا لوہے جڑا ہے کہ فسق و فجور سے بھی نہیں جاتا کچھ بھی کریں مگر پھر بزرگ کے بزرگ ہمارے تقوی کی وہی حالت ہے کہ جیسے بی بی تمیزہ کا وضو تھا کہ کسی طرح ٹوٹتا ہی نہ تھا ۔ حکایت : بی بی تمیزہ کا ایک قصہ مثنوی میں لکھا ہے کہ یہ ایک عورت فاحشہ تھی ۔ کسی بزرگ نے اس کو نصیحت کی اور نماز پڑھنے کی تاکید کی اور وہ وضو بھی کرا دیا اس نے نماز شروع کر دی ایک مدت کے بعد جو ان بزرگ کا وہاں گزر ہوا تو بی بی تمیزہ بھی ملیں ۔ انہوں نے پوچھا کہ بی بی نماز بھی پڑھا کرتی ہو کہنے لگی جی ہاں پڑھتی ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ وضو بھی کرتی ہو کہنے لگی کہ آپ نے اس روز کرا نہیں دیا تھا ۔ صاحب مثنوی نے اس قصہ کو نقل کر کے لکھا ہے کہ ہم لوگوں کا تقوی بالکل ایسا ہی ہے جیسے بی بی تمیزہ کا وضو تھا ۔ کہ نہ وہ زنا سے ٹوٹتا ہے نہ اور کسی فعل سے اسی طرح ہم لوگ اپنے ایسے معتقد ہیں کہ کوئی عیب ہی نہیں نظر آتا ۔ البتہ دوسرے پر طعن کرنے میں خوب پختہ ہیں ۔ دنیا کے رنج و کلفت یا عیش و نعمت کا ناقابل التفات ہونا فرض کیجئے کہ ایک شخص نے حالت خواب میں یہ دیکھا کہ مجھے خوب پیٹا جا رہا ہے اور مجھے چاروں طرف سے سانپ بچھو ڈس رہے ہیں لیکن بیدار ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ تخت شاہی پر آرام کرتا ہے کوئی مورچھل جھل رہا ہے کوئی عطر لا رہا ہے کوئی پان لا رہا ہے ۔ چاروں طرف لوگ دست بستہ کھڑے ہیں تو کیا اس کے دل پر اس خواب کا کوئی اثر باقی رہے گا ۔ ہر گز نہیں بلکہ اگر وہ خواب از خود یاد بھی آ جاوے گا تو طبیعت اس کو بھلا دے گی اور اس کے برعکس ایک شخص نے خواب دیکھا کہ میں تخت شاہی پر جلوہ افروز ہوں اور ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) کہ صرف گناہ ہی بخش دیجئے طاعت تو ہے نہیں ۔