ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ملفوظات حکیم الامت جلد ۔ 27 ۔ کاپی 14 نصوص کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے میں شہوت کا انکسار ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ حکمت (1) ہے ۔ علت نہیں ہے ۔ وجوب تو محض خدا کے حکم سے ہوا اب اس پر یہ حکمتیں مرتب ہو گئیں ۔ ہمارا منصب احکام کی علت سے سوال کرنے کا نہیں ہے اور اگر کوئی علت ہو بھی تو جب موجب (2) نے خود اس کو متعین نہیں فرمایا تو ہماری کیا مجال ہے کہ ہم اسے متعین کرنے لگیں ۔ حکایت : کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ معراج میں خدا تعالی سے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا باتیں ہوئی تھیں ۔ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اکنوں (3) کرادماغ کہ پر سدز باغباں بلبل چہ گفت و گل چہ شنید و صباچہ کرد حقیقت میں ہمارا کیا منصب ہے کہ ہم احکام کی علل دریافت کریں ہمارا تو یہ مذہب ہونا چاہیے کہ زبان (4) تازہ کردن باقرار تو نینگیختن علت از کار تو حق تعالی سے علاوہ ان کے حاکم ہونے کے ہم کو ان سے محبت کا بھی علاقہ ہے دیکھئے خدا تعالی کے تو بہت سے حقوق ہیں حاکم ہونے کا بھی محبوب ہونے کا بھی تو فرض کیجئے اگر کسی بازاری عورت سے پوری محبت ہو جائے اور وہ بے ڈھنگے ہی حکم کرے تو ان کو نہایت خوشی سے پورا کرو گے یا نہیں تو اگر خدا تعالی کی طلب ہی نہیں تب تو ایسے لوگوں سے گفتگو ہی نہیں اور اگر طلب ہے تو یہ حالت ہونی چاہیے کہ زندہ (5) کنی عطائے تو دربکشی فدائے تو دل شدہ مبتلائے تو ہر چہ کنی رضائے تو ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) جو فائدہ کسی کام کے ہو جانے سے حاصل ہوتا ہے وہ حکمت ہے اور جس کی وجہ سے حکم کا وجود ہے اس کے نہ ہونے سے حکم ہی نہ رہے وہ علت ہے اس لئے یہ علت نہیں ۔ (2) واجب کرنے والے نے (3) اب کس کا دماغ ہے کہ باغباں سے یہ پوچھ لے کہ بلبل نے کیا کہا پھول نے کیا سنا اور صبا نے کیا کیا ۔ (4) ہمارا کام تو آپ کے اقرار کے ساتھ زبان کو تازہ رکھنا ہے آپ کے کام میں علتیں گھڑنا نہیں ۔ (6) زندہ کریں تو آپ کا انعام ہے اور اگر مار ڈالیں تو آپ پر فدا ہو جاؤں گا ۔ بس جان آپ پر فریفتہ ہے ۔ جو کچھ کریں آپ کی خوشی ۔