ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
نے حضرت ابراہیم علیہم السلام کا قول نقل فرما کر کفار کے لئے دعا کرنے کا حکم نہیں فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ذوق مقبول ہے تو یہی مذاق ہونا چاہیے ۔ مطیعین کے لئے دعا کریں اور باغیوں کو خدا کے سپرد کر دیں ذم (1) قلت اہتمام دین و معنی دیندار مقصود یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی ہے اس کا مضمون قابل غور ہے اور اس وقت اس کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوا چونکہ ہم میں اس وقت ایک بہت برا مرض کہ بحیثیت مسلمان ہونے کے وہی اصلی مرض ہے ۔ پیدا ہو گیا ہے یعنی قلت اہتمام دین اور یہ وہ مرض ہے کہ اس کی بدولت آج ہم مسلمان کہلانے کے قابل نہیں رہے ۔ اس کی بدولت اکثر حصہ دین کا ہم سے نکل گیا ۔ دیکھو مالدار وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس کافی سے بھی کچھ زیادہ مال ہو اور جس کے پاس دو چار پیسے ہوں وہ مالدار نہیں کہلاتا ورنہ چاہیے کہ ساری دنیا مالدار کہلانے لگے ۔ حالانکہ ایسا نہیں بلکہ دو قسمیں کہلائی جاتی ہیں ۔ ایک غریب ایک امیر تو جیسے مالدار وہ شخص ہے کہ جس کے پاس (2) وافر روپیہ ہو اسی طرح ایماندار بھی وہی ہے جو عقائد اور اعمال وغیرہ میں پوری طرح شریعت کا متبع ہو ۔ حدیث (3) من قال لا الہ الا اللہ الخ کے فہم میں بعض لوگوں کی ایک غلطی اور اس کا ازالہ اور یہ ایمان کچھ ایمان نہیں ہے جس کو اکثر لوگوں نے (4) من قال لا الھ الا اللہ دخل الجنۃ سے سمجھ رکھا ہے ۔ اگرچہ یہ کلمہ واقع میں صحیح ہے لیکن اس وقت اس کو پیش کر کے جو مقصود ثابت کیا جاتا ہے اس کے اعتبار سے (5) کلمۃ حق ارید بھ الباطل کہا جا سکتا ہے تو پہلی غلطی یہ ہے کہ اعمال کو ناقابل شمار سمجھتے ہیں دوسرے یہ کہ خود ایمان کے کلمہ میں بھی اختصار کیا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) دین کا اہتمام کم ہونے کی برائی (2) بہت (3) بخاری و مسلم (4) جو لا الہ الا اللہ کہ خدا تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں کہے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ (5) بات تو حق ہے اس سے باطل مراد لے لیا گیا ۔