ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
مسلمانوں نہیں تو سب مسلمان دیندار ہی ہوئے اور دو قسمیں بن کر کوئی فرق نہیں ہوا یہ دیندار اردنیا اور کافرق بوجہ جہل بالا حکام کے ہم نے تراش لیا ہے ۔ اور فرق نہ ہوا تو کیا وجہ ہے دستور العمل الگ الگ رکھا جائے یہ بات جدا رہی کہ حالت عذر ضرورت میں کسی کے لئے کچھ تخفیف کردی جائے سو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دستور العمل ہر ایک کے واسطے الگ الگ تجویز کیا جائے دستور العمل تو ایک ہی رہے گا مواقع ضرورت اس سے مستثنٰٰی سمجھے جائیں گے ۔ یایھا المذمل کی تفسیر اور اس کا بیان کہ کامل باوجود کمال کے لواز بشریت سے نہیں نکلتا اور اس کا راز حق تعالٰٰی ارشاد فرماتے ہیں ۔ یایھا المزمل قم الیل الا قلیلا نصفھ اوانق منھ قلیلا اوزد اوڑھنے والا چونکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو کفار کی تکذیب سے بہت تکلیف ہوئی تھی رسول صل اللہ علیہ وسلم تو چاہتے تھے کہ یہ کمبخت ایمان لے آئیں تاکہ نار جہنم سے چھوٹ جائیں اور وہ لوگ ایمان تو کیا لاتے الٹی تکذیب پر کمر باندھ رکھی تھی اور آیات الہی سے تمسخر اور مقابلہ کیا کرتے تھے اس وجہ سے آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم بوجہ شدت غم ورنج وحزن وملال کے چار اوڑھ کر بیٹھ گئے تھے اس لئے خاص اس حالت کے اعتبار سے یایھا المزمل ندا وخطاب میں فرمایا گیا تاکہ آنحضرت سے کہا ایک گو وتسلی ہو اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص ہجوم اعداء اور ان کے طعن وتشنیع سے پریشان ہورہا ہو اس وقت اس کا محبوب خاص ایسی حالت کے عنوان سے اس کو پکارے جس کے ساتھ اس کا تلبس ہے تو دیکھئے اس شخص کو کتنی تسلی ہوگی اور اس لفظ کی لذت اس کو کتنی معلوم ہوگی جس کی ایک وجہ یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ محبوب کو میرے حال پر نظر ہے ایسا ہی یہاں بھی یایھا المزمل کے عنوان سے جوکہ مناسب وقت کے ہے ندا دیکر آنحضرت کو تسکین دی گئی ہے اور بعد اس کے اعمال کا حکم دیا جاتا ہے اور ان بعض عارضی احوال پر صبر کرنے کا ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ ایک دوسرے مقام پر بھی اسی طرح ارشاد فرمایا ہے کہ