ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
یہ ہے کہ دین کی طرف توجہ کریں ۔ اور علوم دینیہ حاصل کریں ۔ حکایت : اسی خیال کے ایک اور صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ رسالت کے اقرار کی ضرورت نہیں ہے ۔ صرف توحید کا اقرار نجات کے لئے کافی ہے میں نے کہا کہ اول تو دلائل عقلیہ و نقلیہ جو رسالت کے ضروری ہونے پر قائم ہیں وہ تمہارے مکذب (1) ہیں ۔ دوسرے رسالت کا انکار کرنے سے خدا تعالی کی خدائی کا بھی انکار ہو جاتا ہے ۔ اس واسطے کہ خدا تعالی کے ماننے کے یہ معنی ہیں کہ ان کو صرف موجود مان لیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ ان کو کمال ذات و صفات میں یکتا سمجھے ۔ کیونکہ یہ مسئلہ (2) اجماعیہ ہے کہ اگر ذات کا قائل ہو لیکن صفات کا قائل نہ ہو تو وہ کافر ہے ۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی شخص بادشاہ کو بادشاہ تو مانے لیکن اس کے اختیارات شاہی نہ مانے تو کیا ایسے شخص کی نسبت یہ کہا جائے گا کہ اس نے بادشاہ کو مانا کبھی نہیں تو خدا تعالی کے ماننے اور توحید کے مقر ہونے کے معنی یہی ہیں کہ ہر صفت کمال کے ساتھ علی وجہ الکمال (3) اتصاف سمجھے کہنے لگے کہ بے شک یہ تو ضروری ہے میں نے کہا کہ صفات کمال میں سے ایک صفت صدق بھی ہے اس کے ساتھ بھی متصف ماننا ضروری ہو گا ۔ کہنے لگے کہ ہاں ضروری ہو گا میں نے کہا کہ قرآن شریف میں موجود ہے ۔ محمد رسول اللہ پس اس کا ماننا ضروری ہوا اور جو اس کو نہ مانے گا وہ موحد بھی نہ ہو گا کیونکہ اس نے خدا تعالی کے صدق کو نہ مانا جس کا ماننا ضروری تھا اور میں نے کہا کہ دس برس کی مہلت جواب کے لئے دیتا ہوں ۔ بعض لوگ اعمال میں بھی اختصار کرتے ہیں یہ تو عقائد میں اختصار تھا جس کی مثالیں آپ نے سن لیں ۔ اسی طرح اعمال میں اختصار کر لیا ہے کہ بعض تو اعمال کی فرضیت ہی کے منکر ہیں اور بعض منکر تو نہیں مگر عملا مثل منکرین کے ہیں ۔ تو ان دونوں قسم کے لوگوں کی غلطی قرآن کی آیات سے ثابت ہوتی ہے ۔ رہا من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ سو اس کے معنی کے لئے ایک مثال عرض کیا کرتا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) جھوٹ کو ثابت کرنے والی (2) تمام امت کا اس پر اجماع ہے ۔ (3) کمال کی ہر صفت کے ساتھ پوری طرح موصوف ہونا ۔