ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نباشی شاید کہ نگاہ کند آگاہ نباشی اتنا تو ہونا چاہیے اور ایسی حالت اول تو ہر وقت ہو ورنہ حضوری مساجد کے وقت تو ضروری ہے اور ہر وقت حاصل ہونا اس حالت کا یوں نہ سمجھنا چاہیے کہ بزرگان پیشین پر ختم ہوگیا ہم کو کب ہوسکتا ہے ؎ تو مگو مار ابداں شہ بار نیست باکریماں کارہا دشوار نیست دیکھئے صحابہ کی کیفیت ادب مسجد کی یہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دو شخصوں کو جو مسجد نبوی میں بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ اگر تم باہر کے مسافر نہ ہوتے تو تمہیں سزا دیتا - اترفعان اصواتکما فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس میں یہ شبہ نہ ہو کہ یہ حکم عدم رفع صوت مسجد نبوی کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ مساجد سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہیں - چنانچہ فلا یقربن مساجدن میں آپ نے جمیع مساجد کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے - ہاں مسجد نبوی کا اور زیادہ ادب ہوگا - علاوہ ازیں یہ تو ہے ہی کہ ان المساجد للہ الخ اور جب اللہ کی ہوئیں تو یہ ادب کو بدرجہ اولیٰ مقتضی ہوگا اور جس طرح مجسد قابل ادب ہے ایسے ہی اہل مسجد کا ادب بھی ضروری ہے وہ یہ کہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس سے اہل مجسد کو تاذی ہو - مثلا یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی جگہ نہ کھڑا ہوا جہاں اور آنے جانے والوں کو تکلیف ہو کیونکہ اس میں تکلیف ہے ذاکرین کو علیٰ ہذا ذکر جہر جس وقت کوئی اور شخص نمز پڑھ رہا ہو نہ کرنا چاہیے کونکہ اس کی نماز میں خلل ہوگا اور اس کو تکلیف ہوگی اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مسجدیں بموجب ارشاد نبوی ریاض الجنۃ ہیں - اور جنت میں آزاد تکلیف نہ ہونا چاہیے ؎ بہشت آنجا کہ آزارے نباشد کسے را با کسے کارے نباشد دع کے آداب اور اس کا بیان کہ دعا میں محض معنی ہی مقصود ہیں بخلاف اور عبادات کے کہ ان کے اندر ایک درجہ میں صورت بھی مقصود ہے اور بے دینوں کے ایک شبہ کا جواب وقال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی