ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
مادی نہیں ہیں اگرچہ حادث اور ممکن ہوں ان میں قرب متصور نہیں ہے تو جو ذات پاک امکان اور حدوث سے بھی منزہ (1) ہے ۔ اس میں (2) یہ قرب کیونکر متصور ہو سکتا ہے ۔ جہلا صوفیہ کی قرب کے معنی سمجھنے میں غلطی اور یہاں سے ان عوام الناس کی غلطی معلوم ہو گی جو خواص کی صورت میں ہیں ۔ اور خواص سے علماء و امراء مراد نہیں کیونکہ یہ لوگ تو ایسی غلطیوں سے محفوظ ہیں ۔ بلکہ مشائخ اور صوفیہ مراد ہیں تو جو لوگ ان حضرات کی صورت بنائے ہوئے ہیں اور حقیقت میں وہ عامی ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ قرب خداوندی قرب جسمانی ہے اور اس کا پتہ ان کی مثالوں سے چلتا ہے ۔ اگر محققین سے اس قسم کی کوئی مثال منقول بھی ہو تو ہم اس میں تاویل کریں گے ۔ لیکن یہ عوام اس قسم کے اقوال میں تاویل بھی نہیں کرتے بلکہ ان کے ظاہری متبادر (3) معنی مراد لیتے ہیں اور اس قسم کے اقوال بولنے والے بعض تو وہ ہیں کہ خدا کو دریا اور اپنے کو موج کے ساتھ تشبیہہ دیتے ہیں اور بعض لوگ قطرہ اور دریا کی تشبیہہ دیتے ہیں ۔ تو اگر تشبیہات کسی معتبر (4) کلام میں پائی جائیں گی تو ہم اس کی تاویل کریں گے ۔ علی (5) الاطلاق تشبیہ کا انکار کرنا غلو مذموم ہے کیونکہ محض تشبیہ پر انکار کرنا تو غلو ہے قرآن شریف میں خود تشبیہ موجود ہے (6) اللہ نور السموات والارض مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح المصباح فی زجاجۃ الزجاجۃ کانھا کوکب ۔ الایۃ اس میں تصریح ہے کہ نور خداوندی کی صفت ایسی ہے جیسے کہ ایک طاقچہ ہو کہ اس میں ایک چراغ ہو اور وہ چراغ ایک شیشہ میں اور اس چراغ کی یہ حات ہو جیسے کہ ایک درخشان ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) بری و پاک اس سے پہلے معدوم ہو پھر موجود ہو جائے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ ہے ۔ (2) جسمانی قرب جو دو جسموں میں ہی ہو سکتا تھا ۔ (3) عام ذہنوں میں آنے والے (4) یعنی ایسے بزرگ کے کلام میں جن کی بزرگی احتیاط اور علم مانی ہوئی چیزیں ہوں ۔ (5) ہر قسم کی (6) اللہ تعالی ہی تمام آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والے ہیں ان کو روشن کرنے کی مثال یہ ہے جسیے ایک طاقچہ ہو اس میں ایک چراغ ہو اور چراغ ایک شیشہ میں ہو گویا وہ چراغ ایک چمکتا ستارہ ہے ۔ آخر آیت تک ۔