ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
مغفرت کی چیزیں اس لئے دی گئی ہیں کہ تائب کو یاس نہ ہو جیسا کہا گیا ہے باز آ بازآ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر و گبروبت پرستی باز آ ایں درگہ مادر گہ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ اور جرات اور دلیری کے واسطے نہیں کہ اور دلیر ہوکر گناہ کرو بلکہ احسان اور رحمت خدا وندی کی اطلاع کا مقتضا یہ تھا کہ متاثر ہوکر اور بھی طاعت اور فرمانبرداری کرتے نہ کہ اور جرات اور گستاخی اور نافرمانی کی جائے چنانچہ ہم دنیا میں کوئی کسی کے ساتھ احسان کرتا ہے تو وہ اور زیادہ محبت وطاعت کرتا ہے نہ کہ مخالفت دوسری ۔ گناہ کے اندر کوئی لذت نہیں اور اس کی توضیح مثال سے رہایہ اشکال کہ واقعی اس کا مقتضی تو یہی تھا مگر ایک دوسرا مقتضی کہ لذت ہے وہ غالب ہوگیا چنانچہ گناہ میں ظاہر ہے کہ کیا مزا اور لزت ہے اس کو چھوڑنا اس لئے مشکل ہے سو اگر ادارک صحیح ہے تو یہ اشکال بالکل ٹھیک نہیں کیونکہ گناہ میں جو لذت ہے اس کی مثال کھجلی جیسی ہے کہ خود اس میں کوئی لزت نہیں محض مرض کی وجہ سے لذت معلوم ہوتی ہے پھر فورا ہی سوزش پیدا ہوتی ہے سو یہ دراصل مرض ہے جیسا سانپ کے کٹے ہوئے کو کڑوا بھی میٹھا معلوم ہونے لگتا ہے سو کسی عاقل کو ایسی لذت علاج سے مانع نہیں ہوتی ۔ حقیقی لذت طاعت کے اندر ہے دنیا کے تنعمات تو در حقیقت جان کے لئے عذاب ہیں البتہ حقیقی لذت طاعت میں ہے چونکہ ان لوگوں نے ابھی اعمال آخرت اور پرہیز گاری اور طاعت کی لذت چکھی نہیں اس لئے گناہ اور نفسانی لذات ان کو مرغوب معلوم ہوتے ہیں ۔ آخرت اور پرہیز گاری کی لزت حضرت ابراھیم سے پوچھئے کہ کسی طرح اس کے پیچھے سلطنت کی لذت ترک کردی ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس لذت کے پیچھے لباس شاہانہ ترک کرکے غربیانہ کپڑوں پر کفایت کی اور سیدنا شیخ القادر جیلانی رحمہ