ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
اپنے مضمون کو حدیث سے موئید کر چکے ہیں وہ قصہ یہ ہے کہ حضرت رابعہ کو جس وقت دفن کیا تو حسب قاعدہ فرشتوں نے آ کر سوال کیا تو حضرت رابعہ نہایت اطمینان سے جواب دیتی ہیں کہ کیا اس خدا کو جس کو عمر بھر یاد رکھا گز بھر زمین کے نیچے آ کر بھول جاؤں گی ۔ تم اپنی خبر لو کہ بڑی مسافت طے کر کے آئے ہو تم کو یاد ہے کے نہیں ۔ سبحان اللہ ان حضرات کا یہی اطمینان ہے اسی کو ایک بزرگ فرماتے ہیں ؎ گر نکیر آیدد پرسد کہ بگو رب تو کیست گویم آں کس کہ ربود ایں دل دیوانہ ما ( اگر قبر میں سوال کرنے والا فرشتہ نکیر آئے اور پوچھے تمہارا رب کون ہے تو میں کہہ دوں گا وہی جو ہمارا دل دیوانہ لے گیا ہے ) کیسے اطمینان سے فرماتے ہیں کہ میں تو یہ جواب دوں گا ۔ کہ " آنکس کہ ربود ایں دل دیوانہ ما " تو یہ سارا اطمینان بقاء عقل ہی کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ اس لئے اس صوفی نے یہ کہا کہ بھائی سالک کا رتبہ بڑا ہے کیونکہ اس کی عقل باقی رہتی ہے جس کی بدولت اس کو سینکڑوں مصیبتوں سے نجات ہو جاتی ہے ۔ سالک سے خلق کو ہدایت ہوتی ہے اور مجذوب محض اپنے کام کا ہوتا ہے لیکن اب یہ سمجھنا چاہئیے کہ انبیاء تو سب کے سب کامل العقل ہوئے اور صوفیہ میں جو کہ انبیاء ہی نائب ہیں کچھ سالک یعنی کامل العقل اور کچھ مجذوب یعنی جن کی عقل غلبہ حالات سے مغلوب ہو گئی ان میں یہ دو قسمیں کیوں ہوئیں ۔ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام تو سب کے سب ارشاد و تربیت کی غرض سے بھیجے گئے تھے ۔ اس لئے ان کا کامل العقل ہونا ضروری تھا ۔ کیونکہ اس کے بغیر تربیت نہیں کر سکتے تھے ۔ اور اولیاء بعضے تو ارشاد خلق کی غرض سے پیدا ہوتے ہیں ان کو تو سلوک کا مرتبہ عطا ہوتا ہے تاکہ بقاء عقل کے ساتھ تربیت کا کام انجام دے سکیں اور یہی لوگ ہیں جن کو ورثۃ الانبیاء کہا جاتا ہے اور بعضے محض ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ تائید کیا ہوا قوت دیا ہوا ۔