ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
حق تعالی کے کہنے میں ہیں اور یہ اسی کی برکت ہے چنانچہ خداوند تعالی کبھی کبھی ان کے کہنے کے خلاف بھی کر دیتے ہیں ۔ اور کسی کا تو کیا منہ ہے خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تین دعائیں کیں ۔ ان میں سے دو قبول ہوئیں اور ایک نا منظور ہوئی سو اس سے سمجھ لیجئے کہ جب حضور کی دو دعائیں منظور اور ایک نا منظور ہوئی تو اور کون ہو گا جس کا کہنا ہو جاوے اور میں اس مضمون کو کہتا بھی نہ مگر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تو مجھے چھپانے کی کیا ضرورت ہے ۔ غرض آپ فرماتے ہیں ۔ اللھم (1) ادرالحق معھ حیث دار اور یہ کبھی کبھی ہوتا ہے اور غالب تو یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کے ساتھ ہوتے ہیں اور خداوند تعالی ان کے ذہن میں ادراک (2) پیدا کر دیتے ہیں کہ خلاف حق چلتے ہی نہیں غرض ان کو مرتبہ محبوبیت کا عطا ہوتا ہے وہ خلاف نہیں کرتے یہ وجہ ہوتی ہے صاحب حال کی ترقی و استقامت کی ۔ خلاصہ طریق قرب پس علم و عمل و حال کا جمع کرنا یہ طریقہ ہے قرب و رضاء کا جو کہ بہت بڑی دولت ہے کیونکہ دولت کا مقصود راحت قلب ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا راحت ہو گی کہ اس کا محبوب حقیقی اس سے راضی ہو اور قرب ہو یہ راحت کسی کو بھی نصیب نہیں بلکہ اس دولت میں تو اگر کچھ محنت بھی ہوتی تو اس پر بھی راضی ہوتے ۔ اہل اللہ کو کلفت و مصیبت میں بھی بوجہ قرب و رضاء حق کے راحت ہوتی ہے چنانچہ کبھی ایسی حالت (3) ابتلاء اگر پیش آتی ہے تو قانع ہوتا ہے اس وقت ان کی یہ حالت ہوتی ہے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) یہ حدیث و ترجمہ پچھلے مضمون نمبر 168 میں گزرا ہے ۔ (2) علم اور عقل سے اونچی بات نہیں پولیس والوں کو ڈاکو کی پہچان شاعروں کو کلام کی عمدگی اور برائی کی تاجروں کو گاہکوں کی پہچان اس کی ایک چھوٹی سی نظیر ہے ۔ (3) امتحان کے لئے