ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
دیکھا اور کہنے لگے کہ بھائی یہ کھیر تو بہت ٹیڑھی ہے ۔ حلق میں کیسے اترے گی ۔ اب غور کیجئے کہ کھیر جو اتنی ٹیڑھی ہو گئی اس کا کیا سبب ہوا یہی کہ اس کو تشبیہات میں بیان کیا تو اس اندھے مادر زاد کو اگر ساری دنیا بھی سمجھا دینے کی کوشش کرتی تو اس کی سمجھ میں نہیں آ سکتا تھا ۔ ہاں سمجھانے کی یہ صورت ہے کہ انگلی (1) لے کر اس کے منہ میں دیدی جاوے کہ ہونٹ چاٹتا رہے اور لیجئے اگر کسی نابالغ بچہ کو لذت مجامعت سمجھانا چاہیں تو عمر ختم ہو جائے لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ سکتی البتہ جب وہ بالغ ہو جاوے گا تو خود بغیر سمجھائے سمجھ میں آ جاوے گی ۔ اسی طرح کملاء (2) کے سامنے نااہل لوگ مثل اطفال نابالغ کے ہیں بڑے بڑے حکماء ارسطو افلاطون ان کے سامنے ایسے ہیں جیسے بچے تو ایسوں کے سامنے یہ مضامین بیان کرنا بچے کے سامنے لذت مجامعت بیان کرنا ہے ۔ مولانا فرماتے ہیں خلق (3) اطفالند جز مرد خدا نیست بالغ جز رہیدہ از ہوا جو شخص نفسانی خواہشات سے چھوٹ گیا وہی بالغ ہے اور باقی اس کے مقابلہ میں سب نابالغ تو ان کے سامنے جو کچھ بیان کیا جاوے گا وہ تشبیہات سے بیان کیا جاوے گا اور تشبیہات میں غلطیاں واقع ہوں گی لہذا اسرار وجدانیہ کسی کے سامنے نہ بیان کرنے چاہئیں ۔ محض عبارات تصوف کو یاد کر کے تصوف کا دعوی کرنے کی مذمت اور صدق کی ضرورت آج کل افسوس ہے کہ لوگوں نے اس جمع عبارات کا نام تصوف رکھ لیا ہے اور اکثر اس قسم کے اسرار کہنے والے خود رسمی (4) لوگ ہوتے ہیں اسی کو کہتے ہیں ۔ حرف (5) درویشاں بد زدو مرد و دل تابہ پیش جاہلاں خواند فسوں کہ چند الفاظ سنے سنائے یاد کر لئے اور انہیں کو چند مجالس میں گاتے پھرے اور اگر کوئی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) کھیر لگی ہوئی انگلی (2) کامل بزرگ (3) سارے آدمی نابالغ بچے ہیں سوائے اللہ والے کے اور کوئی بھی بالغ نہیں سوائے اس کے جو خواہشات سے چھوٹ چکا ہے ۔ (4) نقل کرنے والے بناوٹی (5) کمینہ آدمی درویشوں کے لفظوں کو چرا لیتا ہے تاکہ جاہلوں کے سامنے ان کا منتر پڑھ دے ۔ یعنی درویشوں کے تو لفظوں میں بھی عشق کی آگ ہوتی ہے ۔ وہ ان کو لوگوں کے سامنے کہہ دیتا ہے جن کا اثر ہوتا ہے جاہل لوگ خود اس کو صاحب اثر سمجھ کر معتقد ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح اور باریک باریک نکتے بھی ہیں جو آج کل بناوٹی پیروں اور شاعروں کا دستور ہے ۔