ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ہے کہ آخرت کو گھر نہیں سمجھتے نیز اگر آخرت کو اپنا گھر سمجھتے تو دنیا کے ساز و سامان پر اترایا نہ کرتے چنانچہ اگر سفر میں کہیں سیج بند کسا ہوا پلنگ ملے تو کوئی بھی اس پر اتراتا نہیں کیونکہ جانتا ہے کہ یہ تو مانگی ہوئی چیز ہے اور ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ہمارے پاس چار پیسے ہوں تو ہم ان پر اتراتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ ہم دنیا کو اپنا گھر سمجھتے ہیں ۔ کسب دنیا مذموم (1) نہیں ، حب دنیا یعنی انہماک (2) فی الدنیا مذموم ہے دنیا کے کمانے کا مضائقہ نہیں مگر نہ یہ ہو کہ اس میں بالکل کھپ جاؤ جیسے ہم لوگوں کی حالت یہ ہے کہ گویا خدا تعالی سے کوئی واسطہ نہیں ہم کو مثلا جب کپڑا لے کر پسند کرنے بیٹھتے ہیں تو معلوم ہو گا کہ گویا ان کا یہی دین یہی ایمان ہے جب زیور کے پیچھے پڑیں گے تو اس طرح کہ بس وہی دل میں بسا ہو گا پھر کہتا ہوں کہ دنیا کا کام کرنے سے منع نہیں کرتا مگر کہتا ہوں کہ اس میں دل نہ لگاؤ ۔ کام سب کرو مگر جی اترا ہوا ہونا چاہیے ۔ دل کا کھپا دینا یہی زہر ہے یہ وہ بلا ہے کہ اس سے اندیشہ ہے کہ مرتے وقت یہی غالب نہ ہو جائے اور اللہ و رسول کے نام سے اس وقت بالکل بے تعلقی نہ ہو جائے لہذا جہاں تک ہو اس کی کوشش کرو دنیا میں دل لگا ہوا نہ ہو ۔ دل خدا تعالی ہی میں لگاؤ ہاتھ سے کام کرو کچھ حرج نہیں ۔ حکایت : حدیث (1) شریف میں ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و ازواجہ و سلم گھر میں سب کام کر لیتے تھے لیکن اذان کے وقت یہ حالت ہوتی کہ قام (4) کانھ لا یعرفنا اور ہم لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی دنیا کے کام میں مصروف ہوں گے تو اس میں اس قدر منہمک (5) ہوں گے کہ پھر نہ نماز کی فکر رہے گی نہ روزے کی ۔ غرض کہ اس قدر انہماک ہے جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کو دین کی کچھ خبر اور فکر ہی نہیں اور دین کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔ افسوس ! کیا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) برا (2) اس میں کھپ جانا کہ دوسری چیز کے ہوش نہ رہیں (دنیا میں محو ہو جانا ۔ (2) مسلم (4) اس طرح اٹھ کھڑے ہوتے کہ گویا ہم کو جانتے پہچانتے ہی نہیں ۔ (5) محو