ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
میں کہتا ہوں کہ اگر طہارت حاصل کرنے کے لئے یہی شرط ہے کہ حالت کفر کی کوئی چیز باقی نہ رہے تو فصد بھی لینا چاہیے بلکہ گوشت پوست بھی نیا ہونا چاہیے الحاصل یہ سب لغو قیود ہیں اس دربار میں جس کا جی چاہے جب چاہے اور جس حالت میں بھی ہو چلا آوے ۔ صاحبو ! کیا آج کوئی بادشاہ ہے کہ وہ ناپاکوں 1؎ کو بھی اپنے دربار میں حاضری کی اجازت دے ۔ اسی کو عارف شیرازی کہتے ہیں ۔ ہر کہ خواہد گو بیاؤ ہر کہ خواہد گو برو دارو گیر و حاجب و دربان دریں درگاہ نیست ( جو آنا چاہتا ہے تو کہہ دو آ جاؤ جو جانا چاہے کہہ دو جاؤ پکڑ دھکڑ چوکیدار اور دربان اس بارگاہ میں نہیں ہیں ) غرض جس طرح یہاں کسی کو آنے کی ممانعت اور روک ٹوک نہیں اس طرح اگر بگڑ جاوے تو رکھنے کی بھی کوئی تمنا نہیں کرتا ۔ کسی کو اس طرھ سر نہیں چڑھایا گیا کہ وہ ذرا بھی ناز کر سکے ۔ خدا تعالی کی بخشش سے کسی حال میں مایوس نہ ہونا چاہیے گو کتنے ہی گناہ ہوں توبہ کرنے سے سب معاف ہو جاتے ہیں تم اگر گناہوں کی پوٹ لے کر بھی حاضر ہو گئے تو ادھر کے ایک چھینٹے میں سب دھل جائیں گے اس کی ایسی مثال ہے ؎ گر جہاں پر برف گردد سر بسر تاب خود بگداز دش از یک نظر یعنی اگر سارا عالم بھی برف سے پٹ جاوے تو عالم تاب آفتاب کے نکلتے ہی سب پانی ہو کر بہہ جاوے گی ۔ اسی طرح اگر سارا عالم بھی گناہ سے بھر جاوے تو ادھر کی ایک نگاہ کافی ہے ۔ سبحان اللہ ۔ کس پاکیزہ مثال سے کتنے بڑے مسئلے کو بآسانی حل کر دیا واقعی بات یہ ہے اہل اللہ پر چونکہ حقائق کا انکشاف ہوتا ہے ۔ اس لئے ان سے زیادہ بہتر کوئی بھی مثال پیش نہیں کر سکتا ۔ سچ یہ ہے کہ یہی لوگ سچے فلسفی ہیں چنانچہ افلاطون کو کسی نے خواب میں دیکھا اور اس سے ایک ایک حکیم کا نام لے کر پوچھا کہ یہ کیسے تھے ۔ سب کی نسبت یہی کہتا رہا کچھ نہیں پھر اس سے حضرت بایزید حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی نسبت پوچھا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ گعدوں کو