ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ہوں کہ اگر کوئی شخص کسی سے نکاح کرے تو نکاح میں محض ایجاب و قبول دو لفظ ہوتے ہیں ۔ پس ایجاب و قبول کے بعد بیوی اپنے خورد و نوش کے لئے مطالبہ کرے اور شوہر کہے کہ میں نے ان چیزوں کا دینا قبول نہیں کیا تھا تو وہ اس کا کیا جواب دے گی ۔ ظاہر ہے کہ یہی جواب دے گی کہ اگرچہ تم نے ہر ہر چیز کو علیحدہ علیحدہ قبول نہیں کیا ۔ لیکن میرا قبول کرنا ان سب چیزوں کا قبول کرنا ہے ۔ اب میں ان معترضین سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ بھی اس مجلس گفتگو میں موجود ہوں تو کیا کہیں گے یہی کہیں گے کہ یہ ایک قبول ہی سب کا قائم مقام ہے تو جب لا الہ الا اللہ کہہ لیا تو سب عقائد اور اعمال کا ذمہ لے لیا تو اس حدیث کا یہ مدلول ہے کہ اب چاہیے اعمال کو جزو (1) ایمان کہا جائے ۔ یا اس سے خارج مگر لازم لیکن ایمان میں اختصار سخت غلطی ہے ۔ ایمان جب ہی کہلائے گا کہ جب اس کی شان پائی جائے ۔ ہم لوگ مسلم کہلاتے ہیں مگر غور کرنے کے قابل یہ ہے کہ ہماری حالت اسلام سے کس قدر قریب اور اس کے کتنی مناسب ہے ۔ جیسے میں نے مثال دی ہے کہ مالداری اسی کو کہتے ہیں جس کے پاس ہر قسم کا سامان ضرورت سے زیادہ ہو یہی حالت اسلام کی ہے تو ہم کو اپنی حالت دیکھنی چاہیے کہ کس قدر دین سے بے اعتنائی ہو گئی ہے کہ نہ عقائد کی پروا نہ اعمال کی فکر نہ حسن معاشرت کا خیال نہ بد اخلاقی پر رنج ۔ دعائے ابراہیمی کی شرح سو دیکھ لیجئے کہ دعا ابراہیمی میں کن کن اجزاء ایمان کو ضروری کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے میں ایک رسول بھیجئے جن کی صفت یہ ہو کہ ان لوگوں کو آپ کے احکام سنا دیں اور یہ شان ہو کہ ان کو کتاب اور حکمت تعلیم کریں ۔ ان کا تزکیہ (2) کریں رذائل سے بے شک آپ قادر ہیں اور حکیم ہیں کہ موافق کے حکمت کرتے ہیں اور ایسا کرنا مصلحت ہے تو آپ اس کو ضرور قبول فرمائیں گے ۔ اس آیت کے ترجمے سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ رسول ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) یعنی چاہے ایمان عقیدہ و عمل دونوں کے مجموعہ کا نام ہو تو عمل ایمان کا ایک جزو ہو گا جیسے کہ بہت سے علمائے امت کا یہ قول ہے یا ایمان صرف عقیدہ کا نام ہو اور عمل اس کے لئے شرط اور لازم ہو جو دوسرے علماء کا قول ہے دونوں قول پر لا الہ الا اللہ کہنا عقیدوں اور عملوں کی پابندی کا اقرار کرنا ہے ۔ (2) بری عادتوں سے پاک صاف کر دیں ۔