ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
آج کل کام کی تمنا (1) کرتے ہیں مگر (2) ارادہ نہیں کرتے اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو ہے مگر یہ بالکل غلط ہے کیونکہ تمنا دوسری چیز ہے ارادہ دوسری چیز ہے ۔ ایک مرتبہ دو شخص حج کو جانے کی بابت تذکرہ کر رہے تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ بھائی ارادہ تو ہر مسلمان کا ہے میں نے کہا کہ صاحب یہ بالکل غلط ہے اگر ارادہ ہر مسلمان کا ہوتا تو ضرور سب کے سب حج کر آتے ۔ ہاں تو یوں کہیے کہ تمنا ہر مسلمان کی ہے ۔ سو نری تمنا سے کام نہیں چلتا ۔ ارادہ کہتے ہیں سامان کے مہیا کرنے کو ، مثلا ایک شخص زراعت تو کرنا چاہتا ہے لیکن اس کا کوئی سامان مہیا نہیں کرتا اور ایک شخص اس کا سامان بھی جمع کر رہا ہے تو پہلے شخص کو متمنی (3) اور دوسرے کو مرید (4) کہیں گے ۔ اسی طرح اگر دو شخص جامع مسجد پہنچنا چاہیں مگر ایک تو اپنی جگہ بیٹھا ہوا تمنا ظاہر کئے جائے اور ایک شخص چلنا شروع کر دے تو دوسرے کو مرید کہیں گے اور پہلے کو متمنی ۔ تو جب ارادہ ہوتا ہے کام بھی ضرور پورا ہو جاتا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے خود قدرت نہیں ہوتی تو کوئی رہبر مل جاتا ہے ۔ جو معین ہو کر کام پورا کر دیتا ہے ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ السعی منی والاتمام من اللہ میری طرف سے کوشش کرنا ہے اور پورا کرنا اللہ کی طرف سے ہے ۔ پس کام شروع کر دینا چاہیے ، خدا تعالی خود مدد کریں گے اور کام پورا ہو جائے گا ۔ میں ایک عالی ہمتی کی حکایت آپ کو سناتا ہوں ۔ حکایت : اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیخا نے بلایا ہے تو جس مکان میں ان کو لے کر گئی ہے تو یکے بعد دیگرے سات حصے اس مکان کے تھے اور حصہ مقفل تھا ۔ اور قفل بھی ہر حصے کے نہایت مضبوط تھے ۔ غرض پورا سامان کیا گیا تھا کہ حضرت یوسف باہر نکل کر نہ جا سکیں ۔ آخر زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام سے اپنی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) دل دل میں خیال کرنا (2) وہ قصد جس میں سامان بھی کر لیا جائے ۔ (3) تمنا کرنے والا (4) ارادہ کرنے والا ۔