ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
شریعت میں اعمال کے حدود مقرر ہیں اسی طرح اگر کوئی اول وقت نماز پڑھنا چاہے اور اس کی شدت سے بھوک لگی ہو تو شریعت حکم کرے گی کہ نماز کو موخر کرو اور کھانا کھاؤ ۔ اسی راز کو امام ابو حنیفہ نہایت پاکیزہ الفاظ میں فرماتے ہیں ۔ لان یکون اکلی کلھ صلوۃ خیر من ان یکون صلوتی کلھا اکلا میرا سارا کھانا نماز ہو جاوے بہتر ہے اس سے کہ ساری نماز کھانا بن جاوے ۔ کیونکہ جب کھانا کھانے میں نماز کا برابر خیال رہا تو یہ سارا وقت انتظار صلوۃ میں گذرا ۔ اور انتظار صلوۃ میں صلوۃ کا ثواب ملتا ہے ۔ برخلاف اس کے اگر بھوک میں نماز شروع کر دی جائے تو جوارح تو نماز میں مشغول ہوں گے اور دل کھانے میں پڑا ہو گا ۔ تو نماز کھانے کی نذر ہو جاوے گی اور یہی فہم ہے جس کی بدولت ان حضرات کو فقیہ اور مجتہد کہا جاتا ہے آج یہ فہم مفقود ہے ہم لوگ کتابیں ان سے زیادہ پڑھتے ہیں مگر وہ بات حاصل نہیں ہوتی ۔ ع نہ ہر کہ آئینہ (1) دار دسکندری داند اور اسی راز کی بناء پر ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر جسم ہند میں رہے اور دل مکہ میں تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جسم مکہ (2) میں رہے اور دل ہندوستان میں ۔ غرض انسان کے لئے کوئی خاص عبادت مقرر نہیں کیونکہ اس کی شان عبد کی ہے اور جب یہ ہے تو ایک تو وہ شخص ہے کہ نماز پڑھ کر کسی دیہاتی سے باتوں میں مشغول ہے اور کھیتی باڑی کے حالات پوچھ رہا ہے اور دوسرا شخص لا الھ الا اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے ۔ تو بظاہر یہ دوسرا شخص افضل اور اکمل معلوم ہوتا ہے لیکن غور کریں تو معلوم ہو کہ اگر پہلے شخص کی نیت درست ہے مثلا مسافر کے انبساط (3) کے لئے ایسا کر رہا ہے یا کوئی دوسری ایسی ہی نیت ہے تو یہ باتیں زیادہ افضل اور مقبول ہیں ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) یہ بات نہیں کہ جو آئینہ رکھتا ہو وہ سکندر کے کام جانتا ہو کہ جس نے آئینہ ایجاد کیا تھا (2) ہجرت کر کے جانے والا جس کے اہل و عیال اور جائیداد وغیرہ وطن میں ہوں دل ان میں پڑا ہو ۔ (3) دل خوش کرنا اور مسلمانوں کا دل خوش کرنا کار ثواب بھی ہے مسلمان بھائی کا حق ادا کرنا بھی ہے