ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
گفت پیغمبر بآواز بلند برتو کل زانوئے اشتر بہ بند اسباب کا اختیار کرنا توکل فرض کے خلاف نہیں اور اسباب اور توکل کے اجتماع کی توضیح ایک مثال سے اور جان لینا چاہیئے کہ تدبیر واسباب کا اختیار کرنا بھی توکل فرض کے خلاف نہیں ہے اس کی بعینہ مثال تو وکیل کیسی سمجھ لینا چاہیئے ۔ مثلا جب کوئی شخص کسی مقدمہ میں وکیل مقرر کرتا ہے تو کیا وکیل مقرر کرنے کے بعد یہ شخص نکما خالی بیٹھ جاتا ہے ہرگز نہیں بلکہ جتنی کوشش اس سے ہوسکتی ہے خود بھی کرتا ہے اور اس کو خلاف توکیل نہیں سمجھتا بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ وکیل کے کرنے کا جوکام ہے وہ کرے گا جو مجھ سے کچھ ہوسکتا ہے مجھ کو کرنا چاہیئے اسی طرح تدبیر کرنا اعتدال کے ساتھ توکل کیخلاف نہیں توکل کے ساتھ ایک درجہ میں اسباب کی رعایت بھی ضروری ہے اور بعض ایسے امور پر تنبیہہ جن سے دوسروں کو ایذا ہوتی ہے اور لوگ ان سے بے پروائی کرتے ہیں بلکہ تدبیر ایسی چیز ہے کہ جو امور محض اختیار ہیں جن میں تدبیر کو اصلا دخل نہیں محض دعا ہی پر ان کا مدار ہے سنن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی دعا کے ساتھ کچھ صورت تدبیر اختیار کی جاتی ہے ۔ چنانچہ ایک قصہ حدیث سے بیان کیا جات ہے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح توکل اور دعا کو جمع فرمایا اور اس حدیث کے ضمن میں اور بھی فوائد ہیں ۔ ایک صحابی جن کا نام مقداد ہے جوکہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کے مکان پر مسافرانہ مقیم تھے اور ان کو حضور صل اللہ علیہ وسلم نے بکریاں بتلادی تھیں کہ ان کا دودھ نکال کر کچھ خود اور رفقاء پی لیا کرو اور کچھ ہمارے لئے رکھ دیا کرو / اور ان کا اسی طرح معمول تھا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضور کو آنے میں دیر ہوئی