ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
جس طرح سے بنے مال حاصل کرنے کو مقصود سمجھے ۔ اگر کہیں دونوں غرضیں دین ودنیا کی جمع ہوجائیں تو دنیوی غرض کو مقدم رکھا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ دین سے ہم کو کوئی غرض نہیں ، کیونکہ شریعت کے احکام اس قدر دشوار ہیں کہ اگر ہم ان پر عمل کریں تو دنیا کی زندگی مشکل ہے سو ظاہر ہے کہ اسلام کے ساتھ ان خیالات کی گنجائش کہاں ہے کیونکہ اس سے تو باری تعالی کی تکذیب کی نوبت پہنچتی ہے ۔ یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر ولا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا شریعت کے اندر تنگی ہونے کا شبہ اور اس کا جواب اور اگر یہ عذر کیا جائے کہ ہم تکذیب نہیں کرتے مگر جب واقعات ہی روزمرہ اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ احکام شرعیہ پر چلنا بہت مشکل ہے تو ہمارا کیا قصور ہے اس اشتباہ کا جواب یہ ہے کہ ایک مشقت تو ہوتی ہے ذاب حکم میں مثلا وہ حکم فی حدذاتہ سخت اور دشوار ہو یہ اصرار واغلال کہلاتے ہیں ۔ امم سابقہ میں بعضے ایسے احکام تھے مگر اس امت میں اس قسم کے احکام نہیں رکھے گئے اور ایک مشقت یہ ہے کہ دراصل ذات حکم میں تو کوئی دشواری نہیں مگر ہم نے اپنے اغراض فاسدہ کی وجہ سے خود اپنی حالت ایسی بگاڑلی اور قوم نے متفق شریعت کے خلاف عادتیں اختیار کرلیں کہ وہ رسم عام ہوگئی اور ظاہر ہے کہ جب اس رسم عام کے خلاف کوئی حکم شرعی پر چلنا چاہے گا تو ضرور اس کو آسان کام اور بے ضرر حکم میں دشواری پیدا ہوگی ۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی طبیب کسی مریضے کو دوپیسے کا نسخہ لکھ دے مگر مریض چونکہ ایسے گاؤں میں رہتا ہے کہ جہاں کے لوگوں کی نادانی کی وجہ سے یا اس سے کہ وہ لوگ اس قسم کی ضروری اور مفید چیزوں کی رغبت نہیں رکھتے ۔ وہ چیزیں وہاں نہیں آتیں اور نہیں مل سکتیں اس دو پیسے کے نسخہ کو وہاں نہیں پی سکتا اب فی نفسہ نسخہ گراں نہیں کمیاب نہیں مگر اس گاؤں والوں نے خود اپنا دستور بگاڑ رکھا ہے ۔ اس واسطے وہاں نہیں مل سکتا ۔ اس صورت میں ہر عاقل یہی کہے گا کہ علاج بالکل آسان ہے مگر یہ قصور اس جگہ کے رہنے والوں کا ہے کہ ایسی معمولی چیزیں بھی نہیں مل سکتیں ۔ ایسا ہی ہمارا حال