ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
غرض یہ طعن و تشنیع کا شیوہ مناسب نہیں اپنے کام میں لگے رہو اگر کوئی برا ہو تو اس پر رحم کرو اور اس کے لئے دعا کرو ۔ چنانچہ اہل اللہ دنیا داروں پر رحم ہی کرتے ہیں کہ یہ بیچارے حمال (1) ہیں لدے ہوئے ہیں ہانپتے جا رہے ہیں ۔ حضرت شبلی کی یہ حالت تھی کہ جب کسی کو دیکھتے تو کہتے (2) الحمد للہ الذی عافانی مما ابتلاک بھ و فضلنی علی کثیر ممن خلق تفصیلا یہ دعا حدیث میں ہے ۔ حضور نے تعلیم فرمایا ہے کہ جب کسی بیمار کو دیکھو تو یہ دعا پڑھو تو دنیا کی محبت سے زیادہ کون سی بیماری ہو گی کہ قلب کی بیماری ہے اور قلب کی بیماری سب سے بدتر ہے جیسا ارشاد ہے کہ فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا ( ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالی نے ان کی بیماری کو اور زیادہ کر دیا ہے ) حضرت شبلی اس کو سمجھے اور انہوں نے مرض کی حقیقت معلوم کی غرض دنیا دار بیمار ہیں اور اس بیماری سے بچا رہنا خدا کی نعمت ہےجو قابل شکر ہے ۔ حکایت : اکبر پور کا واقعہ ہے کہ ایک خان صاحب نے ایک جلاہے سے براہ تمسخر پوچھا کہ میاں جی کیا کر رہے ہیں ۔ کہنے لگا کہ خدا کا شکر کر رہا ہوں کہ مجھ کو خان صاحب نہ بنایا کسی غریب پر ظلم کرتا اور دوزخ میں جاتا خان صاحب چپ ہی تو رہ گئے ۔ حقیقت میں خدا کی یہ بھی بڑی رحمت ہے کہ گناہ کا سامان ہی نہ دے ۔ آنکس کہ تونگرت نمی گرداند او مصلحت تو از تو بہتر داند ( جو مالک تم کو مالدار نہیں بنا دیتا ہے وہ تمہاری مصلحت کو تم سے زیادہ جانتا ہے ) اب آپ کو معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ واقعی رحم کے قابل ہیں کہ ایک بڑی مصیبت میں پھنسے ہیں ۔ عیش دنیا کو عیش سمجھنا بے حسی ہے مگر ان کو خبر بھی نہیں ان کی وہ حالت ہے جیسے حکایت : ایک سرحدی وحشی (3) ہندوستان میں آیا تھا ۔ کسی حلوائی کی دوکان پر حلوا رکھا دیکھا قیمت پاس نہ تھی آپ اس میں سے بہت سا اٹھا کر کھا گئے حلوائی نے حاکم شہر کو اطلاع ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) بوجھ اٹھانے والے (2) سب تعریف اللہ تعالی کے لئے ہے جس نے مجھ کو اس بیماری سے صحت و عافیت بخشی جس میں تم کو مبتلا کر رکھا ہے اور اپنی مخلوق میں سے بہت پر مجھ کو بہت کچھ فضیلت دی ہے ۔ (3) جاہل و ناواقف کم عقل