ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
واقع میں مشاہدہ ہوتا ہے کہ کتنا ہی سنو جی نہیں بھرتا نیا مزا آتا ہے - قرآن شریف کی دلچسپی پر ایک شبہ اور اس کا جواب اگر کہا جاوے کہ یہ سارا لطف خوش آوازی کی وجہ سے ہوتا ہوگا تو ہم کہیں گے کہ آخر وہ لطف اور وہ ربودگی جو قرآن پڑھنے سے ہوتی ہے شعر پڑھنے سے کیوں نہیں ہوتی اس میں وہ مزا کیوں نہیں حاصل ہوتا اور اگر کسی کو اس میں زیادہ مزا آتا ہو تو وہ ابھی قابل خطاب ہی نہیں ہوا - اس کو چاہیے کہ صحت ادراک وسلامت حال پیدا کرنے کی کوشش کرے پھر موازنہ کرے - صاحبو قرآن تو قرآن ہے کبھی اگر مکہ میں جاکر وہاں کے تکبیر اگر نماز میں سنو جو ایک جزو ہے قرآن کا تو معلوم ہو کہ کیا چیز ہے - سچ مچ اس وقت وہ تکبیر ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے ذبح کے وقت کی تکبیر دل میں چھری نکلتی جاتی ہے - طاعت میں اگر مزہ نہ آوے تو اس کو ترک نہ کرنا چاہیے اور لذت حاصل کرنے کی تدبیر لیکن اگر کسی کو مزہ نہ آوے وہ تلاوت ترک نہ کرے جیسا بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ہم تو اس وقت قرآن پڑھیں گے کہ جب ہم کو مزہ آنے لگے مگر یہ خیال بالکل ہی لغو ہے - اس کی تو ایسی مثال ہے کہ کسی شخص سے کہا جاوے کہ تم قویات کھاپی کر جلدی سے بالغ ہوجاؤ تاکہ سب کو سب بلوغ کے لطف حاصل ہوجائیں اور وہ جواب میں یوں کہے کہ صاحب پہلے سن بلوغ کی لذت کو میں دیکھ لوں کیسی ہوتی ہے تب اس کی تدبیر کروں گا - فرمائیے کہ اس احمق کو کس طرح وہ لذت دکھلادی جائے - اور سوائے اس کے اور کیا جواب اس کو دیا جائے گا کہ تم جب بالغ ہوجاؤگے خود تم کو معلوم ہوں گے - اس کے سوا کوئی تدبیر اس کے حصول کی نہیں اسی طرح ان بالغ پیروں /1 کو یہ جواب دیا جاتا ہے کہ اس لذت کے حاصل کرنے کی کوئی تدبیر اس کے سوا نہیں کہ ہمت کر کے پڑھنے لگو چند روز میں جب تمہارا قلب عالم طفلی سے نکل کر سن بلوغ میں پہنچے گا خود بخود اس کو یہ لذت حاصل ہوگی - البتہ یہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 جو جاہل اور ذکر کی کیفیات سے خالی یعنی فن کے نابالغ ہیں - گو عمر میں بوڑھے ہیں -