ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کی سعی کی قدر کی جائے گی یعنی اس کا بدلہ ملے گا - دونوں جگہ قضیہ / 1 شرطیہ ہے مگر دوسری جگہ کامیابی کا وعدہ ہے اور پہلی صورت میں نہیں ہے - پس حاصل یہ ہوا کہ اختیار میں تو خدا ہی کے ہے دنیا بھی آخرت بھی مگر آخرت کی سعی پر آخرت دینے کا وعدہ ہے - اس لئے وہ قابل تحصیل ہوئی بخلاف دنیا کے بہر حال آیت ام للانسان ما تمنیٰ الخ سے جو شبہ ہوا تھا وہ مرتفع ہوگیا اب ہم لوگوں نے برعکس معاملہ اختیار کیا ہے جس کا ( یعنی دنیا ) وعدہ نہیں ہے اوراس کو اپنی مشیت / 2 پر رکھا ہے اس کی طلب میں تو منہمک ہیں اور نیز اس کے اسباب تحصیل ( نوکری تجارت زراعت وغیرہا ) کی نسبت تو ایسا معمالہ کرتے ہیں گویا ان کے نزدیک مسبب/3 ان پر ضرور مرتب ہوگا اور جس کا وعدہ ہے ( یعنی اخرت ) اس کے اسباب ( صلوۃ صوم حج زکٰوۃ وغیرہا من المامورات / 4 ) کی طرف مطلق التفات نہیں - ع ببیں تفاوت رہ از کجاست تایکجا ( دیکھو تو راستہ کا کہاں سے کہاں تک کا فرق ہے ) خلاصہ یہ کہ دنیا کی ہر منفعت کے اندر کدورت ہے - بخلاف آخرت کے منفعت کے کہ جس کو حق تعالیٰ اپنی رضامندی کے ساتھ جنت نصیب فرمادے - وہاں اس کو کوئی ازار نہیں - فرماتے ہیں و فیھا ما تشتھیہ لانفس یعنی تمہارے لئے جنت میں وہ شے ملے گی جس کو تمہارا جی چاہئے گا دوسری جگہ فرماتے ہیں لا یمسنا فیھا نصب ولا یمسنا فیھا لغوب یعنی ہم کو جنت میں نہ تعب لگے گا اور نہ اس میں تکان ہوگا - اہل جنت میں باوجود تفاوت درجات حسد نہ ہوگا اگر موئی کہے کہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک کے پاس دنیا کا سامان مال اولاد مکان گھوڑے جوڑے وغیرہ بہت ہوتا ہے تو دوسرا دیکھ کر اس کو حسد کرتا ہے اور حسد کی آگ سے جلتا ہے تو یہ مسلمہ ہے کہ جنت میں سب نعمتیں ہوں گی لیکن اختلاف درجات کی وجہ سے شاید آپس میں حسد ہو تو یہ بھی ایک قسم کی تکلیف اور کدورت ہے - جواب یہ ہے کہ وہاں پر ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 شرط و جزا والا جملہ / 2 ارادہ / 3 یعنی جن کے یہ سبب و ذریعے ہیں وہ باتیں ان سے ضروری ہی حاصل ہو جائیں گی - / 4 اور حکم کی ہوئی چیزیں