ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
آج کل لوگوں کی ظاہری حالت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالی سے کچھ بھی علاقہ نہیں اگر محبت ہوتی تو کیا اتنا بھی نہ کیا جاتا ایک بازاری عورت کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ عشق (1) مولائے کے کم از لیلے بود گوئے گشتن بہراو اولے بود بہرحال محبت کی رو سے دیکھئے یا حکومت کی رو سے ہر طرح سر تسلیم خم کر دینا چاہیے اور محبت تو ایسی چیز ہے کہ اس میں لوگوں نے اپنی جانیں دے دی ہیں ۔ حکایت : ایک وکیل صاحب مجھ سے کہتے تھے کہ ایک بزرگ صاحب حال جن کو لوگ مسخرا سمجھا کرتے تھے حج کے لئے گئے جب خانہ کعبہ کے سامنے پہنچے تو مطوف کی زبان سے نکلا کہ یہ کعبہ ہے اس وقت ان پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوئی اور یہ شعر ان کی زبان سے نکلا ۔ چور (2) سی بکوئے دلبر بسپار جان مضطر کہ مباد بار دیگر نہ رسی بدیں تمنا یہ کہتے ہی ایک چیخ ماری اور جان بحق ہو گئے ۔ حکایت : حضرت نجم الدین کبری کے سامنے کسی نے یہ پڑھ دیا کہ جاں (3) بدہ و جاں بدہ و جاں بدہ ۔ آپ نے فرمایا کہ محبوب جاں طلب کر رہا ہے مگر افسوس کوئی جان دینے والا نہیں اور پھر فرمایا کہ جاں دادم (4) و جاں دادم و جاں دادم اور یہ کہتے ہی جان نکل گئی ۔ دین کے تیسرے جزو یعنی عمل کا بیان بس اب تیسری چیز یزکی (5) میں عمل ہے اور اگر وہ نہ ہو تو علم کچھ بھی نہیں تو عمل کی تقسیم یہ ہے کہ ایک تو اعمال ظاہری ہیں اور ایک اعمال باطنی (6) اس وقت جو لوگ عمل کرتے بھی ہیں وہ صرف اعمال ظاہری پر متوجہ ہیں ورنہ باطن کی یہ حالت ہے کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) اللہ تعالی کا عشق لیلی کے عشق سے کب کم ہو سکتا ہے ۔ ان کے واسطے ہی گیند کی طرح لڑھکتے رہنا بہتر ہو گا ۔ (2) جب تم محبوب کے کوچہ میں پہنچ جاؤ تو یہ بیقرار جان اس کے سپرد کر دو ۔ ایسا نہ ہو کہ دوسری بار تم اس آرزو کے ساتھ نہ پہنچ سکو ۔ (3) جان دیدو ، جان دیدو ، جان دیدو ، (4) میں نے جان دے دی ، جان دے دی ، جان دے دی ، ۔ (5) بری عادتوں سے پاک کرتے ہیں ۔ (6) دل کے عمل باقی ظاہر کے ہیں ۔