ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
کسی کام کی دھن ہوتی ہے تو کیا حالت ہو جاتی ہے ۔ اس سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ ایک جماعت کا ایسا ہونا ضروری ہے کہ وہ دین کے کام کے سوا اور کوئی کام نہ کرے اور اس جماعت پر یہ الزام بھی بالکل خلاف انصاف ہے کہ قوم کے محتاج ہیں البتہ اگر وہ تم سے مانگیں تو ان کو جو چاہو سو کہو ۔ سو بحمد اللہ ان کا تو یہ مذاق ہے ۔ حکایت : ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ تم کہاں سے کھاتے ہو کہنے لگے کہ ہم خدا کے مہمان ہیں اور مہمانی تین دن کی ہوا کرتی ہے ۔ ان (1) یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون حضرات واللہ اس وقت بھی ایسے خدا کے بندے موجود ہیں کہ لوگ ان کو دیتے ہیں اور وہ نظر بھی نہیں کرتے (2) اور ان کی وہ حالت ہے ۔ دلا (3) رامے کہ داری دل در و بند دگر چشم از ہمہ عالم فرو بند وہ ایک ہی ذات میں ایسے منہمک ہیں کہ دوسرے کی طرف التفات ہی نہیں ہوتا ۔ حکایت : شاہ نیمروز نے ایک بزرگ کو لکھا ( دیکھئے اس حکایت سے معلوم ہو گا کہ دینے والے درخواست کرتے ہیں اور لینے والے صاف انکار کر دیتے ہیں ) کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنا آدھا ملک نیمروز آپ کے حوالے کر دوں آپ نے جواب میں تحریر فرمایا ۔ چوں (4) چتر سنجری رخ بختم سیاہ باد دردل اگر بود ہوس ملک سنجرم انگہ (5) کہ یافتم خبر از ملک نیم شب من ملک نیمروز بہ یک جونمی خرم غور کیجئے کہ ادھر سے اصرار ہے اور ادھر سے سوکھا جواب کہ ہم کو کوئی ضرورت نہیں اور اس میں تصنع نہیں تھا ورنہ اثر کیوں ہوتا ۔ اہل اللہ طفیل خوار نہیں ہیں اور اس حالت سے کوئی اہل اللہ کو طفیل خوار نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ سرکاری لوگ ہیں ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) بیشک ایک دن تمہارے رب کے یہاں ان ایک ہزار سال کے برابر ہے جو کو تم گنتے ہو ۔ (2) خود حضرت مولانا تھانوی بھی اس کا نمونہ تھے ۔ (3) تم جو محبوب رکھتے ہو بس دل اس میں ہی لگا رکھو ۔ پھر دوسرے سارے جہاں سے آنکھ بند کر لو ۔ (4) بادشاہ سنجر کے سیاہ چھتر کی طرح میرے نصیبہ کا منہ سیاہ ہو جائے گا اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ہوس ہو ۔ (5) جب سے میں نے آدھی رات کے ملک کی خبر پالی ہے میں آدھے دن ( نیمروز ) والے ملک کو ایک جو کے دانہ کے بدلہ بھی نہیں خرید سکتا ۔