ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
گفت آن اللہ تو لبیک ماست دین نیاز و سوز و دردت پیک ماست حکایت : ایک بزرگ کی حکایت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے لکھی ہے کہ وہ ذکر کرنے بیٹھے تو یہ آوز آئی کہ تم کچھ بھی کرو یہاں کچھ قبول نہیں مگر وہ پھر کام لگ گئے - ان کے ایک مرید نے کہا کہ جب کچھ نفع ہی مرتب نہیں تو محنت سے کیا فائدہ - بزرگ نے جوب دیا کہ بھائی اگر کوئی دوسرا ایسا ہوتا کہ میں خدا کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوجاتا تو اعراض ممکن بھی تھا - اب تو یہی ایک در ہے قبول ہو یا نہ ہو ؎ توانی ازاں دل بپرداختن کہ دانی کہ بے او تواں ساختن اس جواب پر رحمت خداوندی کو جوش ہوا اورارشاد ہوا کہ ؎ قبول ست گرچہ ہنر نیستت کہ جز ما پناہی دگر نیستت غرض طالب کو ہر حال میں طلب میں مشغول رہنا چاہیے اور یہ حالت ہونی چاہیے اندریں رہ می تراش و می خراش تادم آخر دمے فارغ مباش تادم آخر دمے آخر بود ! کہ عنایت با تو صاھب سربود کامل کی پہچان البتہ اس موقع پر اس کی ضرورت ہے کہ کامل کی کوئی پہچان بتلائی جائے کیونکہ آج کل بہت سے شیطان بھی لباس میں ہیں - مولانا فرماتے ہیں ؎ اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نیاید داد دست تو پہچان اس کی یہ ہے کہ شریعت کا ضروری علم رکھتا ہوں - کسی 2 کامل شیخ کے تربیت میں رہاہو اور اس 3 سے اجازت تربیت حاصل ہو ـ خود شریعت پر عامل ہو - شریعت 5 کے خلاف پر اصرار نہ کرتا ہے - سنت 6 کا پورا پابند ہو - اپنے متعقلین 7 پر شفقت کرتا ہو احستاب میں کمی نہ کرتا ہو جس میں یہ سب باتیں جمع ہوں وہ کامل ہے اور ایسے ہی لوگوں کی نسبت کہا ہے ؎ یک زمانہ صحبت با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا