ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
تو میں سمجھا کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی کہیں دعوت ہوگئی ہوگی یہ خیال کرکے آپ کا حصہ بھی پی گیا مگر اتفاق سے جب پی چکا اس وقت خیال آیا کہ شاید آپ نے کچھ نہ کھایا ہو اور بے چینی کا یہ حال ہوا کہ کروٹیں بدلتا ہوں اور نیند نہیں آتی ۔ اس کشش وپنج میں تھا کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کی عادت شریفہ آنے کے وقت یہ تھی کہ جب تشریف لاتے اور دیکھتے کہ گھروالے لیٹے ہیں تو بہت آہستہ سے سلام کرتے اس طرح سے کہ اگر حاضرین جاگتے ہوں تو سن لیتے اور اگر سوتے ہوتے تو آنکھ نہ کھلتی اس طرح نسائی میں حضرت عائشہ صدیقہ سے آپ کا شب برات میں بقیع میں جانے کے لئے آہستہ اٹھنا اور آہستہ سے کواڑ کھولنا سب کام آہستہ سے فرماتے کہ اگر کوئی جاگتا ہوتو سن لے اور سوتا ہوتو اس کی نیند میں خلل نہ آئے اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض لوگ دوسرے آدمیوں کی تکلیف کا اصلا خیال نہیں کرتے سوتے آدمیوں میں اٹھ کر سب کام بے تکلف زور زور سے کرتے ہیں اور اس سے دوسرے کو ایذا ہوتی ہے اسی طرح یہ امر بھی موجب ایذا ہے کہ مشغول کار آدمی کو اپنی طرف متوجہ چاہتے ہیں جس سے اس کے ضروری کام میں حرج بھی ہوتا ہے اور پریشانی بھی ۔ آج کل محض لفظ پرستی رہ گئی ہے آداب واخلاق کی حقیقت سے اہل علم بھی بے خبر ہیں حضرت ہماری سبھی حالتیں بگڑ رہی ہیں ہر چیز میں افراط وتفریط ہورہی ہے اور عوام کی کیا شکایت کریں انصاف یہ ہے کہ آداب کو بعض اہل علم تک نہیں جانتے محض لفظ پرستی رہ گئی ہے مولوی گستی و آگاہ نیتی خود کجا و از کجا و کیستی اس لفظ پرستی پر ایک مثال یاد آئی ایک شخص کا انتقال ہوا موت کے قریب بیٹے کو نصیحت کہ کہ جو کوئی میری تعزیعت کو آئے اس کو اونچی بٹھانا اور نرم اور شیریں باتیں کرنا اور بھاری کپڑے پہن کر اس سے ملنا اور قیمتی کھانا کھلانا ۔ اب صاحبزادے کی سنئے کہ ایک