ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
حب دنیا کی مذمت اور حب دنیا مذموم کی حقیقت حق تعالی آیت کلا بل تحبون العاجلۃ ۔ وتذرون الاخرۃ ۔ میں ایک شکایت کو ظاہر فرما رہے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ تم لوگ دنیا سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو چھوڑتے ہو یہاں تحبون العاجلۃ ( تم دنیا سے محبت کرتے ہو ۔ ) کے بعد تذرون الاخرۃ ( آخرت کو چھوڑتے ہو ) بڑھانے سے حب دنیا کی تفسیر بھی ہو گئی ۔ یعنی حب دنیا اس کو کہیں گے جس میں آخرت کا ترک ہو جائے اور اس سے حب الدنیا راس کل خطیئۃ ( دنیا کی محبت ہر گناہ کی سردار ہے یہ حدیث میں ہے ) کے معنی بھی سمجھ میں آ گئے ہوں گے ۔ یعنی حب دنیا وہ ہے کہ جس کی بدولت آخرت چھوٹ جائے ورنہ اگر آخرت نہ چھوٹے تو وہ حب دنیا نہ سمجھی جائے گی ۔ اور وہ (1) راس کل خطیئۃ ( ہر گناہ کی سردار ) میں داخل نہ ہو گی گو اس کی طرف طبعی میلان اور بقدر ضرورت اس کا اکتساب (1) بھی ہو اب اس کے معلوم ہو جانے سے بہت سے اشکالات (2) رفع ہو جائیں گے ۔ اہل دنیا کے اس اعتراض کا جواب کہ مولوی دنیا کو ترک کراتے ہیں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علماء ہم کو دنیا کے لینے سے بالکل روکتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہم مسجد کے ملا ہو کر بیٹھ جائیں چنانچہ ان لوگوں نے اس قسم کی ایک حکایت بھی گھڑی ہے کہتے ہیں کہ حکایت : کسی بادشاہ کے یہاں بہت سے مولوی جمع ہو گئے تھے ۔ سب نے اتفاق کر کے بادشاہ سے کہا کہ فوج پر جو یہ روپیہ فضول خرچ ہو رہا ہے اس کو موقوف کر دو ۔ اس نے کہا کہ فوج اس ضرورت سے رکھی گئی کہ اگر کوئی غنیم آئے تو یہ اس کو دفع کریں ۔ مولویوں نے کہا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) کمانا ۔ (2) دنیا چھڑانا نہیں ہے نہ اس کی طرف طبعی رغبت کو روکنا ہے نہ ضرورت کے موافق اس کا کمانا برا ہے ۔ ہاں اس میں کھپ جانا اور دل کو اس میں اور اس کو دل میں جما لینا برا ہے ۔