ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ہو رہا تھا کہ ایک طالب علم وقت سے دیر کر کے سبق کے لئے آئے حضرت شاہ کو منکشف ہو گیا کہ جنبی ہے غسل نہیں کیا ۔ وہ طالب علم معقولی تھے ۔ معقولی ایسے ہی لا پرواہ ہوتے ہیں شاہ صاحب نے مسجد سے باہر ہی روک دیا اور فرمایا کہ آج تو طبیت سست ہے جمنا پر چل کر نہائیں گے ۔ سب لنگیاں لے کر چلو سب لنگیاں لے کر چلے سب نے غسل کیا اور وہاں سے آکر فرمایا کہ ناغہ مت کرو کچھ پڑھ لو وہ طالب علم ندامت سے پانی پانی ہوگیا اہل اللہ کی یہ شان ہوتی ہے کیسے لطیف انداز سے اس امر بالمعروف فرمایا ۔ شیخ سے اپنا کوئی عیب نہ چھپانا چاہیے اور جب بزرگوں کی شان معلوم ہوگئی کہ وہ کسی کو رسوا نہٰں کرتے تو اب مستفیدین کو بھی چاہیے کہ ایسے شیوخ سے اپنے عیب کو نہ چھپایا کریں اس لئے کہ عیب ظاہر نہ کرنا دو وجہ سے ہوتا ہے یا تو خوف ہوتا ہے کہ یہ ہم کو حقیر سمجھیں گے سو ان حضرات میں نہ تو یہ بات ہے کہ کسی کو حقیر سمجھیں اس لئے کہ یہ حضرات سوائے اپنے نفس کے کسی کو حقیر نہیں سمجھتے اور یا یہ خوف ہوتا ہے کہ کسی کو اطلاع کر دیں گے ۔ سو نہ ان حضرات میں یہ بات ہے اس لئے ان سے صاف کہہ دینا چاہیے مگر یہ اظہار معالجہ کے لئے ہے نہ کہ بلا ضرورت کیونکہ بلا ضرورت گناہ کو ظاہر کرنا بھی گناہ ہے اور بضرورت ظاہر کرنے کے حق میں حضرت عارف شیرازی فرماتے ہیں ۔ چنداں کہ گفتیم غم باطبیباں در ماں نکر دند مسکین غریباں ( بہت بہت بار ہم نے طبیبوں سے اپنا غم کہا مگر وہ غریب مسکین علاج ہی نہ کر سکے ) ما حال دل را با یار گفتیم نتواں نہفتن در داز حبیباں ( ہم نے دل کا حال آخر دوست سے کہہ دیا دوستوں سے درد کو چھپایا بھی نہیں جا سکتا ) بد نگاہی کے عام ہونے کے وجوہ اور اس کا بیان کہ گناہوں کی بنیاد کب سے پڑتی ہے غرض چانکہ وہ لوگ کسی کو فضیحت 1؎ نہیں کرتے اور جوفضیحت کرنے والے ہیں ان کو ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ بزرگ رسوا نہیں کرتے