ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
ہے کہ مجموعہ قوم نے مل کر کر ایسی حالت بگاڑی دی ہے کہ اب احکام شرعیہ کے بجالانے میں دشواری پیدا ہوگئی ہے ۔ مثلا بہانہ کیا جاتا ہے کہ تنخواہ کم ہے بھلا اگر رشوت نہ لیں تو کام کیسے چلے اگر اپنے اخراجات اندازہ سے رکھے جائیں تو تنخواہ کیوں نہ کفالت کرے یا مثلا عام طور پر بیر آم کی بیع پھل آنے سے پہلے کی جاتی ہے اور اگر ایک بچنا چاہے تو ضررد کسی قدر دقت پیش آتی ہے لیکن اگر سب اتفاق کرلیں کہ اس طرح سے کوئی خریدو فروخت نہ کرے تو دیکھیں پھر کیا دشواری پیش آتی ہے ۔ دشواری حقیقی تو وہ ہے کہ اگر سب مل گر اس مذموم رسم اور طریق کو چھوڑنا چاہیں اور وہ چھوٹ جائے تو یہ دشواری نہٰین آسان ہے یہ عارضی دشواری تو صرف اپنا طرز معاشرت بگاڑ دینے اور طریق عمل کو خراب کردینے سے پیدا ہوگئی ہے سو یہ تنگی خود اپنے اوپر تنگی ڈال لینے سے ہوئی ۔ تعجب ہے کہ خود اپنی تنگی کو نہ دیکھیں ۔ شریعت پر تنگی کا الزام دیں جیسا کہ اس شیر نے جس کا قصہ مثنوی میں ہے خرگوش کے بہکانے سے اپنا عکس دیکھا اور اس کو دوسرا شیر سمجھ کر اس پر حملہ کرنے کنوئیں میں کود پڑا ۔ دراصل وہ خود اپنے اوپر حملہ کر رہا تھا ۔ ایسے ہی ہم اپنے عیب کو آئینہ شریعت میں دیکھ رہے ہیں اور نا سجھی سے اس کو شریعت کی تنگی بتا رہے ہیں ۔ سو یہ در حقیقت شریعت پر حملہ نہ ہوا بلکہ خود اپنی ذات پر حملہ کر رہے ہیں حملہ بر خود می کنی اے سادہ مرد ہمچوں آں شیرے کہ بر خود حملہ کرد ہماری تنگی کا یہی قصہ ہے ۔ رشوت لینے کا عذر اور اس کا جواب بعض لوگ عذر کرتے ہیں کہ ہم ناجائز معاملات رشوت ستانی وغیرہ ضرورت کی وجہ سے کرتے ہیں مگر حقیقت میں وہ لوگ جس کو ضرورت کہتے ہیں وہ ضرورت ہی نہیں بلکہ محض حظوظ نفسانیہ ہیں ۔ جن کا نام ضرورت رکھ دیا ہے ۔ مثلا کسی کی نوکری کے پیسے میں اتنی گنجائش ہے کہ معمولی درمیانی قیمت کا کپڑے پہن سکتا ہے مگر بیش قیمت زرق برق کپڑے بنانے کی گنجائش نہیں ۔ اس صورت میں عقلمند آدمی کبھی بھی ایسے گراں قدر کپڑوں کی