ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
راحت ہو مسرت ہو انبساط ہو دوسری مثال اور لیجئے کہ تاجر مختلف اشیاٰ کی تجارت کرتے ہیں کوئی بساطی ہے کوئی بزاز ہے - کوئی بقال ہے اور کوئی لکھنو میں تکات کرتا ہے - کوئی کلکتے میں کوئی بمبئی میں تو یہ سب ایک شے کے طالب ہیں وہ شے کیا ہے نفع مگر اس کے طرق مختلف ہیں کسی نے سمجھا کہ بزازی کی دکان میں نفع ہے کسی نے خیال کیا کہ بساط خانہ میں بہت نفع ہے - اس نے اسی کو اختیار کر لیا کسی نے سمجھا کہ لکھنو میں اچکن اچھی ہوتی ہے - وہ وہاں جا پہنچا کسی نے یہ خیال کیا کہ کلکتے میں تجارت سے بہت نفع ہوگا - وہ وہاں پہنچ گیا - چنانچہ اگر کسی تاجر سے کہا جاوے کہ تم کو جو نفع کلکتے میں ملے گا وہ ہی نفع تم کو ہم یہاں دیتے ہیں وہ ہرگز کلکتہ نہ جاوے گا کیونکہ مقصد اس کو حاصل ہوگیا - غرض یہ امر بالکل واضح ہوگیا ہو گا کہ بظاہر اشیاء مختلفہ کے طالب ہیں مگر حقیقۃ مطلوب ایک ہے - لزت و راحت کے حاصل کرنے میں رایوں کا اختلاف اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ اس مطلوب یعنی لذت و راحت کے حاصل کرنے میں رائیں مختلف ہیں - کسی کی رائے تجارت کی ہے کسی کی زراعت کی ہے اور گاہے آپس میں ایک دوسرے کو خاطی / 1 بتاتے ہیں چنانچہ جو تجارت کرتا ہے وہ احیانا زراعت کرنے والے کو خطا پر بتاتا ہے - اور زراعت کرنے والا تاجر کو خاطی بتارہا ہے اور ان ہی طالبین میں بچے بھی ہیں وہ بھی اس مطلوب یعنی لذت و راحت کے حاصل کرنے میں مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں - لڑکیاں گڑیں کھیلتی ہیں - لڑکے کوئی گیند کھیلتا ہے کوئی کنکوا اڑاتا ہے کوئی ریتے کا مکان بناتا ہے ان کے مکان کو ہم بہیودہ شغل سمجھتے ہیں اور ہم جو قرض لے لے کر مکان بناتے ہیں اس کو بہیودہ نہیں سمجھتے وجہ یہ ہے کہ اپنے مکان کو پائیدار سمجھتے ہیں اور معتدبہ راحت کا آلہ - لزت و راحت کے درجے اور افراد پس معلوم ہوا کہ اس مقصود کے باوجود اس کے کہ واحد ہے درجات مختلف ہیں ایک معتبر اور قابل شمار اور دوسرے غیر معتبر اور نا قبل شمار اور مجموعہ تقریر سے دو امر معلوم ہوئے ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ / 1 خطا کار / 2 کبھی کبھی