ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
شرماتے تھے ۔ جب ان سے یہ خطا واقع ہوئی تو ان کا جی چاہتا ہے کہ ہم کو سزا اس دنیا میں مل جائے تو ہماری طبعیت صاف ہو جاوے ۔ اور اپنے مالک حقیقی سے سر خرو ہو جائیں ۔ اگر سزا نہ ہوتی تو ساری عمر رنجیدہ رہتے اور یہ غم ان کے نزدیک نہایت جانکاہ و جاں فرمایا تھا ۔ اس بناء پر فرماتے ہیں کہ ہم نے تم کو اس خطا کی یہ سزا دے دی تاکہ تم کو غم نہ ہو غرض کہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو سزا کا نام سن کر رکتے ہیں اور ایک وہ جو صرف اطلاع کی خبر دینے سے شرماتے ہیں اور اس کام کے قریب نہیں جاتے جو بے حیا تھے وہ تو یوں رکے کہ یعلم میں اشارہ سزا کی طرف بھی ہے چنانچہ مفسرین ایسے مقام 1؎ پر فیجا زیکم بہ فرماتے ہیں اور دوسرے مذاق والوں کے لئے وعید ہے ۔ لوگوں کو بد نگاہی سے بچنے کا اہتمام نہ ہونا اور اس کا بیان کہ بد نگاہی کے متعلق کیا کیا دھوکے ہوتے ہیں اس تمام تر تقریر سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ مرض نہایت اہتمام کے قابل ہے اب ہم کو اپنی حالت دیکھنا چاہیے ۔ کہ ہمارے اندر اس معصیت سے بچنے کا کتنا اہتمام ہے میں دیکھتا ہوں کہ شاید ہزار میں ایک اس سے بچا ہوا ہو ورنہ ابتلائے عام ہے اس کو نہایت درجہ خفیف سمجھتے ہیں جو جوان ہیں ان کو تو اس کا احساس ہوتا ہے اور جن کی قوت شہویہ ضعیف ہو گئی ہے ان کو احساس بھی نہیں ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کو شہوت 2؎ ہی نہیں اس لئے کچھ حرج نہیں ہے۔ سو ان کو مرض کا پتہ بھی نہیں لگتا اور بعضوں کو دھکہ ہوتا ہے وہ یہ کہ شیطان بہکاتا ہے کہ جیسے کسی پھول اچھے کپڑے اچھے مکان وغیرہ کو دیکھنے کو دل چاہتا ہے ایسے ہی اچھی صورت دیکھنے کو بھی دل چاہتا ہے ۔ سو یہ بالکل دھوکہ ہے یاد رکھو کہ رغبت کے مختلف انواع ہیں جیسی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ کیونکہ خبر رکھنا علم ہونا ہے جب علم ہوگا اس کا نتیجہ سزا بھی ہوگی اس لئے مفسرین کہتیں ہیں کہ مراد یہ ہے کہ تم کو اس کی سزا بھی دیں گے کیونکہ علم اور نتیجہ دونوں مراد ہیں جب جانتے ہیں تو تم کو اس کی سزا بھی دیں گے ۔ 2؎ وہ ضعیف کو نہ ہونا قرار دے دیتے ہیں یہ دھوکہ ہے جس میں نفس نے مبتلا کر دیا ہے ۔