ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
کیفیات باطنی پر نظر نہ تھی ، دیکھئے محققین کی تو یہاں تک نگاہ ہے کہ خدا کے نام اور احکام میں کیفیات باطنی تک کا قصد نہ کریں اور افسوس آج کل لوگوں کا یہ حال ہے کہ وظائف تحصیل دنیا کے لئے پڑھتے ہیں کوئی دست غیب تلاش کرتا پھرتا ہے حالانکہ اس میں جواز تک بھی نہیں ۔ کیونکہ اس کے ذریعہ سے جو کچھ ملتا ہے ہے وہ حرام ہے کیونکہ جن مسخر ہوجاتے ہیں اور وہ لوگوں کا مال چرا چرا کر عامل کو دیتے ہیں یا اگر اپنا لائیں تب بھی مجبور ہوکر لاتے ہیں ایسا ہی تسخیر قلوب کا حال ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے جو مال دیا جاتا ہے وہ طیب خاطر سے نہیں دیا جاتا ۔ مغلوب الرائے ومضطر ہوکر دیتا ہے ۔ عملیات کی خرابیاں اور اگر کسی عمل میں جواز بھی ہوتب بھی ایسے اغراض کے لئے اللہ تعالٰٰی کے نام کی بے قدری کرنا اور بھی بے ادبی ہے اور احادیث میں سورۃ واقعہ کا پڑھنا وغیرہ آیا ہے وہ دنیا کو معین دین بنانے کی غرض سے ہے جو کہ دین ہی ہے ۔ کاش یہ لوگ بجائے ان اعمال کے دعا کیا کرتے اگر مقصود حاصل ہوجاتا تو بھی مطلب کا مطلب اور ثواب کا ثواب اور اگر نہ ہوتا بھی دعا کا ثواب کہیں گیا ہی نہ تھا ۔ مذکور بالا خرابیوں کے علاوہ عمل میں ایک اور بھی خرابی ہے کہ دعا سے تو پیدا ہوتی ہے عاجز اور فروتنی اور عمل سے پیدا ہوتا ہے ۔ دعوی عامل جانتا ہے کہ بس ہم نے یہ کردیا اور وہ کردیا ۔ حکایت : مولانا فضل الرحمن صاحب گنج مراد آبادی علیہ الرحمتہ کا لوگ ذکر کرتے ہیں کہ فرماتے تھے اگر صاحب نسبت عمل کرے تو نسبت سلب ہوجاتی ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ عامل کو خدا پر تو توکل رہتا اور عجب پیدا ہوجاتا ہے اور یہ منافی ہے نسبت مع اللہ کرے ۔ امور اختیار یہ میں بھی دعا کی ضرورت ہے اور اسباب کے موثر ہونے کی حقیقت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کے سرد ہوجانے کے قصہ سے رفع تعجب دعا صرف امور غیر اختیاری کے ساتھ خاص نہیں جیسا عام خیال ہے کہ جو امر اپنے