ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
پاس سے اس قسم کا لغو سوال کبھی نہ آئے گا ۔ غرض اس وقت یہ ایسی آفت ہے کہ مجیب سائل کے تابع ہو جاتے ہیں مگر ان محقق کا جواب نہایت ہی نفیس تھا کہ اگر فیض لینے والا تو ہے تو نہیں ہوتا مقصود یہ ہے کہ قبور سے جو فیض ہوتا ہے تو صاحب نسبت (1) فناء کو ہوتا ہے ۔ قبور سے فیض حاصل کر سکنے پر بھی شیخ سے استغناء (2) نہیں ہوتا طالب اگر صاحب کشف بھی ہو جائے تب بھی اس کو شیخ سے استغنا جائز نہیں کیونکہ اس میں کفایت نہیں ہوتی وجہ یہ ہے کہ فیض کی دو قسمیں ہیں ایک یہ دلالت لفظیہ (3) یعنی تعلیم و تلقین ایک غیر لفظیہ یعنی تقویت نسبت افادہ اور استفادہ میں لفظیہ بہت مفید اور ممد ہے ۔ پس صرف قبور سے استفادہ پر بس کرنا غلطی ہے کیونکہ قبور سے اتنا فیض ہوتا ہے کہ حالت موجودہ میں ترقی ہوتی ہے اور بس بخلاف زندہ کے کہ اگر کوئی شبہ ہو تو پیش کر کے حل کر سکتا ہے ۔ خوب مشبع (4) طور سے تو اس کی برابر ہر گز فیض قبور نہیں ہو سکتا ۔ علوم دینیہ سے بے التفاتی اور عمل میں کوتاہی کی شکایت اور مضرت یہ تو معلوم ہے کہ اس وقت کتنی بے التفاتی دین سے ہو رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ مضر ہے یا نہیں تو یوں سمجئے کہ جس حکومت کے ماتحت کوئی شخص رہتا ہے اس کو اس حکومت کے قوانین جاننے کی ضرورت ہے اور قوانین ہوتے ہیں دو قسم کے ایک تو وہ کہ جن میں محض ہار جیت ہو جیسے مال کے قوانین ۔ سو اول تو ان کا جاننا بھی ضروری ہے لیکن اگر ان کو نہ بھی سیکھا جائے تو زیادہ ضرر نہیں (1) اس لئے کہ ہار جانا خسارہ ہے جرم نہیں ہے دوسرے وہ قوانین ہیں کہ ان کی خلاف ورزی جرم اور بغاوت ہے ان کا سیکھنا واجب ہوتا ہے ۔ خواہ پڑھ کر یا پوچھ کر تو اب میں یہ سوال کرتا ہوں کہ ہم لوگ خدا تعالی کی عملداری میں ہیں یا نہیں ۔ اور ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) سب کو نہیں ہوتا اب لوگوں نے نقالی کر رکھی ہے جو عام طور سے دیکھی جاتی ہے ۔ (2) بے پروائی اور ضرورت نہ رہنا ۔ (3) الفاظ کے ذریعہ دوسرے تک معانی کو پہنچانا (4) پیٹ بھر کے یعنی پوری تسلی سے