ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
حکایت : میں نے خود ایک مجنونہ کو دیکھا کہ اس کو اس قدر کشف ہوتا تھا کہ بزرگوں کو بھی نہیں ہوتا لیکن جب اس کا مسہل ہوا تو مادہ کے ساتھ ہی کشف بھی نکل گیا تو کشف بھی دلیل مجذوب ہونے کی نہیں غرض عوام کو یہ معلوم ہونا نہایت دشوار ہے کہ یہ شخص مجذوب ہے اور بالفرض اگر وہ اس علامت سے مجذوب بھی ثابت ہو گئے تو تم نے مجذوب کو تو تلاش کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام مبارک کی بے ادبی کی کہ قصدا اس کی پشت کی طرف درود شریف پڑھا پھر یہ کہ اس کے مجذوب ہونے سے تم کو کیا فائدہ مجذوب سے تو نہ دنیا کا فائدہ ہوتا ہے نہ دین کا ۔ دین کا تو اس لئے نہیں کہ وہ تعلیم پر موقوف ہے اور تعلیم اس سے حاصل نہیں ہوتی ۔ اور دنیا کا اس لئے کہ وہ دعا سے ہوتا ہے اور مجذوب دعا کرتے نہیں کیونکہ وہ لوگ اکثر صاحب کشف ہوتے ہیں ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں معاملہ میں اس طرح ہو گا تو اس کے موافق دعا کرنا تو تحصیل (1) حاصل ہے اور خلاف دعا کرنا تقدیر کا مقابلہ ہے البتہ وہ کشف کی بناء پر بطور پیشین گوئی کچھ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں معاملہ میں یوں ہو گا ۔ سو اگر وہ نہ بھی کہتے تب بھی اسی طرح ہوتا ۔ اس طرح ہو جانا کچھ ان کے کہنے کے سبب سے نہیں ہوا ۔ ہاں سالک سے ہر طرح کا نفع ہوتا ہے کیونکہ وہاں تعلیم بھی ہوتی ہے اور دعا بھی بلکہ مجذوب کے فکر میں پڑنے سے ضرر یہ ہوتا ہے کہ لوگ شریعت کو بیکار سمجھنے لگتے ہیں ۔ حاصل یہ کہ غیر مومن کو مقبول سمجھنا بالکل قرآن کا معارضہ (2) ہے لہذا جوگیوں اور جاہل فقیروں کے پیچھنے پڑنا اپنی عاقبت خراب کرنا ہے ۔ اعمال کا مدار خلوص پر ہونا قبول اعمال کا تفاوت خلوص سے ہوتا ہے کیونکہ اہل علم کے درجات میں امتیاز اس خلوص ہی کے سبب سے ہوا جیسا اوپر مذکور ہوا ہے اور اس مسئلہ کو بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ آج کل اعمال کے تو شائق ہیں لیکن خلوص کی پرواہ اکثر نہیں ہوتی ۔ حالانکہ خلوص وہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) حاصل شدہ چیز کا حاصل کرنا جو محال ہے کہ اب اس کا حاصل کرنا کیا معنی 12 (2) مخالفت ہے ارشاد ہے ان اولیآؤہ الا المتقون ( اللہ تعالی کے ولی و دوست صرف تقوی والے ہی ہیں ) اور تقوی کی پہلی شرط کفر و شرک سے بچنا ہے ۔ پھر گناہوں سے