ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
میں سامان کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ نہ اس میں ضرورت روپیہ کی اور نہ اس میں بدنامی کیونکہ اس کی خبر تو اللہ ہی کو ہے کہ کیسی نیت ہے کسی کو گھور لیا اور مولوی صاحب مولوی صاحب رہتے ہیں اور قاری صاحب قاری صاحب رہتے ہیں ۔ نہ اس فعل سے ان کی مولویت میں فرق آتا ہے اور نہ قاری صاحب کے قاری ہونے میں دھبہ لگتا ہے اور گناہوں کی خبر تو اوروں کو بھی ہوتی ہے ۔ مگر اس کی اطلاع کسی کو نہیں ہوتی ۔ معصیت کرتے ہیں اور نیک نام رہتے ہیں لڑکوں کو گھورتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو بچوں سے بڑی محبت ہے ببکہ آنکھوں کے گناہ میں اطلاع نہیں ہوتی تو دل کے گناہ میں تو کیسے ہو سکتی ہے ۔ بزرگوں کی پردہ پوشی اور اس کا بیان کہ بدنگاہی سے آنکھ بے نور ہو جاتی ہے اور جن کو اطلاع ہوتی ہے وہ حضرات ایسے محتمل اور ظرف والے ہیں کہ کسی کو خبر نہیں کرتے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خطاب خاص سے تو اس کو کچھ نہ فرمایا لیکنیہ فرمایا ما بال اقوام یترشح الزنا من اعینھم یعنی لوگوں کا کیا حال ہے کہ ان کی آنکھوں سے زنا ٹپکتا ہے تو یہ عنوان ایسا ہے کہ اس میں رسوائی کچھ نہیں لیکن جو کرنے والا ہے وہ سمجھ جائے گا کہ مجھ سے فرما رہے ہیں اہل کشف نے لکھا ہے کہ بدنگاہی سے آنکھوں میں ایسی ظلمت ہو جاتی ہے کہ جس کو تھوڑی سی بصیرت ہو وہ پہچان لے گا کہ اس شخص کی نگاہ پاک نہیں ہے ۔ اگر دو شخص ایسے لئے جاویں کہ عمر میں حسن و جمال میں اور ہر امر میں وہ برابر ہوں فرق ان میں صرف اس قدر ہو کہ ایک فاجر ہو دوسرا متقیہو جب چاہے دیکھ لو متقی کی آنکھ میں رونق اور دل فریبی ہوگی اور فاسق کی آنکھ میں ایک قسم کی ظلمت اور بے رونقی ہو گی ۔ لیکن اہل کشف خصوصیت سے کسی کو کہتے نہیں عیب پوشی کرتے ہیں ۔ حکایت : اس پر مجھے مولانا شاہ عبدالقادر صاحب ؒ کی حکایت یاد آئی شاہ صاحب مسجد میں بیٹھ کر حدیث کا درس دیا کرتے تھے ایک مرتبہ حسب معمول حدیث کا درس