ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
دید مجنوں را یکے صحرا نورد دربیابان غمش بنشستہ فرد ریگ کاغذ بود و انگشتاں قلم می نمودے بہر کس نامہ رقم گفت اے مجنوں شیدا چیست ایں مے نویسی نامہ بہر کیست ایں گفت مشق نام لیلٰی می کنم خاطر خود را تسلی می دہم کبھی قبولیت دعا کی اس طرح ہوتی ہے کہ اس کا اجر آخرت کے لئے ذخیرہ کیا جاتا ہے اور علاوہ اس کے کہ وہ دعا ان کی مصلحت کے مناسب نہ ہو کبھی یہ بھی ہوتا ہے اس کا اجر آخرت کے لئے ذخیرہ کیا جاتا ہے ۔ سو تعجب ہے کہ مومن ذخیرہ آخرت پر قناعت نہ کرے متاع دنیا کے حاصل نہ ہونے پر افسوس کرے ۔ مومن کامل تو نعمت اخرویہ کے رو برو دنیوی سلطنت تک کو گرد سمجھتے ہیں ۔ حکایت : ایک دفعہ سلطان سنجر شاہ ملک نمروز نے حضرت پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ اگر آپ قبول فرمائیں تو میں ملک نیمروز آپ کو ہدیہ کرتا ہوں ۔ اس کے جواب میں حضرت نے یہ دو شعر تحریر فرمائے چوں چتر سنجری رخ بختم سیا باد دردل اگر بود ہوس ملک سنجرم زانگہ کہ یا فتم خبراز ملک نیم شب من ملک نیمروز بیک جو نمی خرم دعاء رضا بالقضا کے خلاف نہیں بعض لوگوں کو شاید یہ شبہ ہو کہ دعا رضا بالقضا کے خلاف ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ دعا اور رضا دونوں جمع ہوسکتے ہیں اس طور پر کہ عین دعا کے وقت یہ قصد ہے کہ اگر دعا کے موافق ہوگیا تو یہی قضا ہے اور اس پر راضی ہوں گے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو وہی قضا ہے اس پر راضی ہوں گے ۔ اور چونکہ دعا بھی مامور بہ ہے اس لئے وہ بھی داخل فضا ہے ۔