ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
ہوجائے تو یہ اس کی نادانی ہے ۔ اللہ تعالٰٰی نے اسباب پیدا کئے ہیں اور ان میں حکمتیں اور مصلحتین رکھی ہیں ۔ مطلق اسباب کا اس طور پر معطل چھوڑنا افراط وغلو ہے اور ایک گونہ تعطیل ہے حکم الہییہ کی جوکہ سوئے ادب اور خلاف عبدیت ہے اور مباشرت اسباب میں اظہار عبدیت افتقار الی اللہ بھی ہے جوکہ اعظم مقاصد سے ہے اس لئے ایسے امور میں مباشرت اسباب اور دونوں کا ہونا ضروری ہے اور اس میں اعتدال اور تعدیل ہے ۔ دعا کے قبول ہونے پر بھروسہ اور یقین ہوتو بشرط عدم عارض خاص ضرور اثر ہوتا ہے گو اسباب نا تمام ہی ہوں بعض دفعہ اللہ تعالٰی جل شانہ اپنی رحمت وعنایات سے نیک بندوں کی عاجزی اور دعاء زاری پر نظر فرما کر محض اپنی قدرت سے تھوڑا سے ناتمام اسباب سے یا بلا اسباب بھی اثر مرتب فرمادیتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں یہ قصہ موجود ہے کہ ایک نیک بی بی نے تنور میں سوختہ جھونک کر اللہ تعالٰٰی سے دعا کی اللھم ارزقنا تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھا کہ تنور روٹیوں سے پر ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں قوت یقینیہ زیادہ تھی پورا یقین اس کی رزاقی پر تھا ۔ چنانچہ اس کا ظہور ملا ۔ اسباب ہوا اور یہ حضرات تو اللہ تعالٰی کے برگزیدہ تھے ۔ ابلیس کے یقین اور توقع اجابت دعا کی کیفیت دیکھئے کہ عین غضب الہی اجابت دعا کے لئے مانع نہیں ان رحمت سیقت غضبی حالانکہ یہ سوال ایسا بعید ہے کہ خود انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی خلود اور دوام نہیں عنایت کیا گیا ۔ ماجعلنا لبشر من قبلک الخلد مگر شیطان نے رحمت کی وسعت کے بھروسہ پھر اس کی کردی اور حکم بھی ہوگیا ۔ فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم دعا کے قبول ہونے پر بھروسہ اور یقین ہوتو ضرور اثر ہوتا ہے اور یقین ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑے بڑے آثار پیدا ہوتے ہیں ۔ حکایت : چنانچہ حضرت علاء بن الحضر می حضرت صدیق اکبر کی خلافت میں جب غزوہ مرتدین کے لئے بحرین پر گئے اور راستہ میں دربار پڑا تو ساتھیوں نے اس وجہ سے کہ کشتی تیار نہ تھی ٹھہر نے کہا فرمانے لگے خلیفہ کا حکم ہے جلدی پہنچنے کا اس لئے میں ٹھہر نہیں