ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کہ کل کی بات معلوم ہو جایا کرے موسیٰ علیہ السلام نے اس کو نصیحت کی کہ اس کو جانے دے ۔ اس نے نصیحت نہ مانی اور اصرار کیا ۔ انہوں نے دعا کردی اور وہ قبول ہوگئی اس کو معلوم ہوا کہ کل کو میرا گھوڑا مرجائے گا اس نے فورا بازار میں جاکر بیچ ڈالا اور خوش ہوا پھر معلوم ہوا کہ کل کومیں مرجاؤں گا بہت پریشان ہوا اور موسٰی علیہ السلام سے جاکر عرض کیا کہ کیا کرو ۔ وحی آئی کہ اس سے کہہ دو کہ تجھ کو اس کشف راز سے منع کیا گیا تھا تونے نہ مانا ۔ آخر تو نے دیکھا کہ اصل یہ ہے کہ تیرے گھرپر ایک بلا آنے والی ہے ۔ ہم نے چاہا کہ جانور پر پڑجائے تو نے اس کو جدا کردیا ہم نے چاہا کہ غلام پر پڑ جائے تو نے اس کو بھی جدا کردیا ۔ اب تو ہی رہ گیا اگر تجھ کو پہلے سے آئندہ کی خبر نہ ہوا کرتی تو گھوڑا اور غلام کیوں بیچا جاتا اور تو معرض ہلاکت میں کیوں پڑتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنی بعض مصلحت انسان نہیں سمجھتا تو اس معلوم ہونے پر اس کو بہت پریشانی اٹھانی پڑی تھی ۔ ذاکرین کو چاہیے کہ اپنی خواہش سے کسی حالت کی تمنا اور طلب نہ کریں بلکہ جو حالت غیر اختیاری اللہ تعالٰٰی وارد فرمائیں اسی کو بہتر جانیں یہاں سے ذاکرین شاغلین کے واسطے یہی نصیحت نکلتی ہے کہ جو حالت غیر اختیاری اللہ تعالی وارد فرمائیں اسی کو اپنے لئے بہتر جانیں اور اپنی خواہش سے کسی پسندیدہ حالت کی تمنا نہ کریں بدرد و صاف ترا حکم نیست دم درکش کہ ہر چہ ساقی ماریخت عین الطاف است مجاہدے سے کسی خاص حالت کا قصد ٹھک نہیں تو بندگی چو گدایاں بشرط مزد مکن کہ خواجہ خود روش بندہ بروری اند ہر حالت میں جو اس کی طرف سے آئے وہی مناسب ہے ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ذوق وشوق وانبساط باعث عجب ہوجاتا ہے تو مربی حقیقی اس کا علاج اس طرح فرماتے ہیں کہ حزن وملال اور انقباض کو اس پر مسلط کر دیتے ہیں جس سے تواضع وانکسار پیدا ہوتا ہے ۔ الغرض اپنے لئے کوئی فکر اپنی خواہش دلپسند پر نہ کرنا چاہیے ۔