ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ہیں اس سے معلوم ہوا کہ خلق کی طرف مشغولی ہونا منافی کمال نہیں ۔ پس صاحب کمال پر بھی ہر وقت یکساں حالت نہیں رہتی ۔ حکایت : حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت حنظلہ کا قصہ حدیث میں ہے کہ حضرت حنظلہ نے اپنے کو اس بناء پر منافق کہا کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ اور حالت ہوتی ہے اور پیچھے کچھ اور اس پر حضرت صدیق اکبر نے فرمایا کہ یہ حالت تو ہماری بھی ہے آخر یہ قصہ حضور میں پہنچا اس پر آنحضرت نے فرمایا ولٰٰکن یا حنظلھ ساعۃ وساعۃ ایک گھڑی کیسی ایک گھڑی کیسی در حقیقت اگر ہر وقت وہی حالت تجلی کی رہے خود جسمانی ترکیب بھی ٹھیک نہ رہے اول تعطل ہوگا کیونکہ حالت علیہ میں انتظام تغذیہ وغیرہ کا ممکن نہیں پھر اس سے فنا کی نوبت آجائے گی ۔ ولنعم موقیل چو سلطان عزت علم برکشد جہاں سر بجیب عدم در شکد دوسری مصلحت یہ بھی ہے کہ ذوق ولذت جب ہی آتی ہے کہ اس حالت میں دوام نہ ہو ورنہ دوام سے غیر حادث ہوجائے گی اور لذت جو بہ سبب حدوث کے معلوم ہوتی نہ رہے گی کہ کل جدید لذیذ اس کے علاوہ ایک اور حکمت بھی ہے وہ یہ کہ غلبہ استغراق میں قصد نہ رہے گا اور بلا قصد کے اعمال کا اجر نہیں اور بلا اعمال قرب نہیں ملتا اور اعمال ہی دنیا میں مقصود ہیں ۔ دنیا میں انہیں اعمال کے واسطے بھیجا گیا ہے ورنہ دنیا میں آنے سے پہلے روح کو خود ایسی حالتیں حاصل تھیں اور حضور دائم میسر تھا مگر اعمال نہ تھے ۔ ان کے واسطے دنیا میں بھیجا گیا لہذا اعمال اور ان کا اجرام امر بالشان ٹھہرا ۔ اس لئے محقیقن صوفیہ نے فرمایا ہے کہ استغروق میں ترقی نہیں ہوتی ۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوگیا کہ تجلی میں جیسی حکمتیں ہیں ویسی استسار میں بھی ہیں ۔ کامل بعد تکمیل بھی ذکر سے غفلت نہ چاہیئے اور یہاں ایک فائدہ قابل غور معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ باوجود یکہ تبلیغ دین وتعلیم احکام متعدی نفع ہے اور وہ نفع لازمی بڑھ کر ہے اس لئے منتہی کو اس زیادہ اہتمام ہوتا ہے مگر