ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
مرشد کی توجہ سے جو قلب میں کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ نہ قابل اعتماد ہے اور نہ باقی اس تقریر پر شاید اہل فن کو یہ شبہ ہو کہ بعض مرتبہ مرشد کی توجہ سے طالب کے قلب میں ایک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو کہ خود محنت کرنے سے پیدا نہیں ہوتی ۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف اس کیفیت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ اگر خود کچھ نہ کیا جائے تو یہ کیفیت باقی بھی نہیں رہتی ۔ اس کیفیت کی مثال ایسی سمجھنی چاہیے جیسے آگ کے سامنے بیٹھنے سے بدن کا گرم ہو جانا ۔ لیکن یہ گرمی باقی نہیں رہتی ۔ آگ کے سامنے سے ہٹ کر ہوا لگی کہ بدن میں ٹھنڈک پیدا ہوئی اسی طرح اس کیفیت میں بھی پیر سے جدا ہوتے ہی کورے کے کورے رہ جاتے ہیں ۔ حکایت : ایک بزرگ نے اپنے عم عصر بزرگ سے کہا کہ تم اپنے مریدوں سے محنت لیتے ہو اور ہم نہیں لیتے ۔ انہوں نے یہ سن کر اپنے ایک مرید سے کہا کہ تم ذرا ان کے مرید سے مصافحہ تو کرو ۔ مصافحہ کرنا تھا کہ وہ کم محنت مرید خالی رہ گئے ۔ پیر نے ان سے کہا کہ دیکھا نتیجہ محنت نہ کرنے کا ۔ اب تم ہمارے کسی مرید کو تو اس طرح کورا کر دو ۔ بات یہ ہے کہ اپنی کمائی کی قدر بھی خوب ہوتی ہے اور مفت کی چیز کی کچھ قدر نہیں ہوتی ۔ ہرکہ (1) اوارزاں خرد ارزاں دہد ! گوہرے طفلے بقرص نان دہد مشہور ہے کہ ایک شخص ادہوڑ کا جوتا دوشالے سے جھاڑ رہا تھا ۔ لوگوں نے اس سے سبب پوچھا تو کہا کہ دوشالہ تو میرے والد کی کمائی کا ہے اور جوتا میری کمائی کا ہے ۔ جو لوگ خود کام کرتے ہیں ان کی حالت پائیدار ہوتی ہے اور جو لوگ اپنے بوتہ پر کام کرتے ہیں ان کی حالت ساری عمر یکساں رہتی ہے ۔ البتہ ان میں شور و غل اچھل کود نہیں ہوتی اور نہ یہ مطلوب ہے ۔ دیکھو اگر کوئی بچہ کی تربیت کرنا ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) جو شخص سستا خریدتا ہے ۔ سستا دے دیتا ہے ایک بچہ موتی کو روٹی کی ٹکیہ کے بدلہ میں دے دیتا ہے ۔