ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
جتلانے کو ایسا کہہ دیا ہوگا خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہاں شان اور بڑائی کا نام بھی نہ تھا ۔ جن لوگوں نے مولانا کو دیکھا ہے وہ تو خوب جانتے ہیں مگر جن لوگوں نے نہیں دیکھا ہے ان کے لئے ایک قصہ بیان کرتا ہوں اس سے اندازہ ہوگا کہ وہاں شان اور بڑائی کتنی تھی ۔ ایک مرتبہ حضرت مولانا حدیث شریف کا درس دے رہے تھے ابر ہو رہا تھا کہ اچانک بوندیں پڑنا شروع ہو گئیں جس قدر طالب علم شریک درس تھے سب نے کتاب کی حفاظت کے لئے کتابیں اٹھائیں بھاگے اور سہ دری میں پناہ لی اور کتابیں رکھ کر جوتے اٹھانے صحن کی طرف جو رخ کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت مولانا ؒ سب کے جوتے سمیٹ کر جمع کر رہے ہیں اس واقعہ سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ وہاں کس قدر شان کو جتلایا جاتا تھا شان نہ تھی بلکہ محض محبت دینی تھی کہ غرباء کو امرا سے کچھ کم نہیں سمجھا یہی لوگ ہیں جن کی بدولت دنیا کا کارخانہ قائم اور نظام عالم مسلسل ہے جس دن یہ حضرات نہ رہیں گے قیمت قائم ہو جائے گی ۔ دین کے کام سے دنیا کا فائدہ مقصود نہ ہونا چاہیے اور اس کا بیان کہ طالب حق کی کیا حلت ہوتی ہے غرض یہ تو حضرت عمر کا امتحان تھا جس میں وہ پورے اترے آگے جبلہ کا امتحان ہے کہ دیکھیں کیا سمجھ کر ایمان لایا ہے آیا کوئی دنیاوی غرض عز و جاہ کی ہے کہ مسلمان ذی عزت ہوتے چلے جا رہے ہیں ان کے ہم رنگ ہو جاویں گے تو ہم کو بھی عزت نصیب ہو گی یا یہ کہ محض طلب آخرت کے لئے ایمان لایا ہے چنانچہ بعض لوگ بزرگوں سے بھی اس لئے ملتے ہیں کہ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں ان کو بڑا سمجھتے ہیں اگر ہم ان کے ساتھ رہیں گے ہماری بھی عزت ہوگی اکثر چھانٹ چھانٹ کر ایسے ہی بزرگوں سے بیعت ہوتے ہیں کسی جلاہے ، تیلی کے گو وہ کیسا ہی بزرگ اور نیک ہو مرید نہیں ہوتے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ محض مدعی ہیں بس ہم کو نہ طلب صادق ہے نہ محبت واقعی جہاں اپنی دنیاوی غرض پوری ہوتے دیکھتے ہیں چار قدم بڑھا دیتے ہیں ۔ یہ نہ ہو تو یہ بھی نہیں ایسے ہی لوگ ہیں کو کہ امتحان کے وقت ادھورے اترتے ہیں ۔ عند الامتحان یکرم الرجل او یھان (امتحان