ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
موقوف اس کی تحقیق کی جاتی ہے ۔ صاحبو ! اگر کوئی برا ہے تو تم کو کیا غرض اور اچھا ہے تو تم کو کیا مطلب تمہیں اپنی اچھائی برائی کی فکر ہونی چاہیے ۔ حکایت : حضرت رابعہ بصری کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کبھی شیطان کو بھی برا نہ کہتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جتنی دیر اس فضول کام میں صرف کی جائے اتنی دیر تک اگر محبوب کے ذکر میں مشغول رہیں تو کس قدر فائدہ ہے ۔ شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ چہ (1) خوش گفت بہلول فرخند خوئے چوبگذشت برعارف جنگ جوئے گر ایں (2) مدعی دوست بشناختے بہ پیکار دشمن نہ پرداختے ! دیکھو اگر کسی کا محبوب بغل میں بیٹھا باتیں کر رہا ہو اور اس حالت میں ایک شخص آ کر اس عاشق کو ماں کی سڑی ہوئی گالی دے تو عاشق کی طبیعت اس کو گوارا کرے گی کہ محبوب کو چھوڑ کر انتقام لینے کے درپے ہو جائے ۔ اور اگر اس نے ایسا کیا تو کہا جاوے گا کہ اس کا عشق نہایت خام اور ناتمام ہے ۔ اسی طرح سمجھ دار لوگ ایسے موقع پر سمجھ جاتے ہیں کہ شیطان جو ہمارا خاص دشمن ہے وہ اس شخص کو بہکا کر لایا ہے کہ اس کو دوسری طرف مشغول کر کے بہکائے اس لئے وہ پروا بھی نہیں کرتے اور محبوب کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور جتنی اس میں کمی ہوتی ہے اس قدر (3) ان میں بھی کمی ہوتی ہے ۔ ایک شخص نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ بزرگوں کی شان اور ان کے حالات کس طرح مختلف ہوتے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں مسجد میں تین بزرگ بیٹھے ہیں ان کے پاس جاؤ معلوم ہو جائے گا کہ بزرگوں کے حالات میں کیا فرق ہوتا ہے چنانچہ وہ شخص گیا اور جا کر دیکھا کہ کوئی بے ادب آیا اور ان بزرگوں میں سے اول ایک کے ایک چپت رسید کی ۔ انہوں نے اٹھ کر اتنے ہی زور سے ایک چپت اس کے بھی مار دی اور پھر بیٹھ کر ذکر ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ (1) عمدہ اخلاق والے حضرت بہلول نے کیا اچھا کہا ہے جب کہ ایک معرفت والے بزرگ پر جو جھگڑ رہے تھے گزرے ۔ 12 (2) اگر یہ دعویدار معرفت واقعی خدا کو پہچان لیتا تو دشمن سے لڑائی کرنے میں مشغول ہی نہ ہوتا 12 ۔ (3) یعنی جتنی کمی محبوب کی طرف توجہ اور غیر سے بے پروائی میں ہو گی اتنی ہی کمی ان کے درجہ میں ہو گی ۔