ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
جیسے طبیب مشفق کی شان ہوتی ہے مریض اگر کڑوی دوا سے ناک منہ چڑھاتا ہے تو وہ اس کو کسی اچھی تدبیر سے کھلا دیتا ہے - با بدل دیتا ہے ایسا ہی انہوں نے دیکھا کہ مثلا ایک شخص کو ایک ہزار چیزوں سے تعلق ہے تو اگر ایک ایک چیز سے تعلق چھڑا دیا جاوے تو بہت مدت صرف ہوگی کوئی تدابیر ایسی ہونا چاہیے کہ ایک دم سے سب کا خاتمہ ہوجائے - جیسے کسی مکان میں کوڑا بہت ہو تو اس کی صفائی کا ایک طریق تو یہ ہے کہ ایک ایک تنکا لیا اور پھینک تو ایسے ہی یہاں بھی کوئی جھاڑو ہونا چاہیے کہ سب تعلقات کو سمیٹ کر ایک جگہ کر دیوے پھر اس ایک کا ازالہ کردیا جاوے - چنانچہ ان کی سمجھ میں آیا کہ عشق ایک ایسی شے ہے کہ سب چیزروں کو پھونک کر خود ہی رہ جاتا ہے چنانچہ اگر کوئی کسی کسی وغیرہ پر عاشق ہوجاتا ہے تو ماں بیوی بچے باغ مکان حتیٰ کہ اپنی جان تک اس کے واسطے ضائع کردیتا ہے - ایک رئیس کو بیلوں کا عشق تھا ہزارہا روپیہ اس میں ضائع کردیا - ہمارے استاد حضرت مولانا فتح محمد صاحب تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کو کتابوں کا شوق تھا - خود نہ دیکھتے تھے مگر سیکڑوں کتابیں اس قسم کی خرید کر رکھ چھوڑیں غرض عشق وہ شے ہے کہ سوائے معشوق کے سب کو فنا کردیا ہے ؎ عشق آں شعلہ است کو چوں برفروخت ہر چہ معشوق باشد جملہ سوخت ( عشق تو وہ شعلہ ہے کہ جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق کے سوا جو کچھ ہوتا ہے سب کو پھونک دیتا ہے ) اس لئے ان بزرگوں نے تجویز کیا کہ طالب کے اندر عشق پیدا کرنا چاہیے خواہ کسی شے کا ہو اس وسطے وہ اول دریافت کرتے تھے کہ کسی پر عاشق بھی ہو پس معلوم ہوا اس کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ آدمی ہی کا عشق ہو بھینس کا عشق بھی اس کے لئے کافی ہے - اس لئے کہ مقصود تو یہ ہے تمام اشیاء سے توجہ منصرف ہو کر ایک طرف ہوجاوے تاکہ پھر اس کا امالہ /1 عشق حقیقی کی طرف سہل ہوجاؤے - ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ /1 مائل کردینا عشق حقیقی سے بدل دینا