ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
متاب ز عشق رد گرچہ مجازی است کہ آں بہر حقیقت کار سازی است ( عشق سے منہ نہ پھیرو اگرچہ عشق مجازی ہی ہو کیونکہ وہ عشق کا کام بنادینے والی چیز ہے ) گر اول الف باتا نخوانی زقرآن حرف خواند کے توانی ( اگر شروع میں الف باتا نہیں پڑھوگے تو قرآن مجید کے حروف کب پڑھ سکو گے - مجازی نہ ہوگا تو حقیقی تک کیسے پہنچوگے ) اس سے بعض نادانوں سے سمجھا کہ جب تک کسی رنڈی کسی لونڈے کو قبلہ /1 توجہ نہ بنایا جاوے اس وقت عشق حقیقی میسر نہ ہوگا - بڑی غلطی اور سخت کم فہمی ہے میں اس کا مطلب عرض کرتا ہوں بات یہ ہے کہ اصلی مقصود طالب کا تو یہ ہے کہ جملہ تعلقات قطع کر کے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ ہو تو اس کے دو جز ہیں - تعلقات مخلوق سے قطع کرنا اس کو تو اصطلاح میں فصل کہتے ہیں اور دوسری طرف تعلق پیدا ہونا اس کو وصل کہتے ہیں - اور یہ /2 تعلقات ہی فاصل و حاجب بن رہے ہیں اگر یہ درمیان سے اٹھ جاویں تو وصل ہی وصل ہے - شیخ فرماتے ہیں ؎ تعلق حجاب ست و بے حاصلی چو پیوند ہا بگ لی و اصلی ( اللہ تعالیٰ پہنچنے میں یہ مخلوق کے تعلقات ہی حجاب ہیں اور بے حاصل کام ہے جب ان تعلقات کو توڑ ڈالوگے واصل ہوجاؤگے ) پس معلوم ہوا کہ مقصود انقطاع/3 عما سوی اللہ ہے جب یہ ہوجاوے تو قصہ سہل ہے اور اس انقطاع کی تحصیل کے لئے بزرگوں نے مختلف معالجے اور تدبیریں فرمائی ہیں مقصود ایک ہی ہے صرف طریق مختلف ہیں ان میں سے ایک طریق تو یہ ہے کہ جس جس مخلوق سے تعلق ہو اور جو مرض ہو اس کو قلب سے ایک ایک کر کے زائل کردیا جائے چنانچہ متقدمین کا یہی طریق تھا لیکن اس طریق کے اندر سخت مشقت تھی اس لئے کہ مثلا کسی شخص کو دس چیزوں سے تعلق ہے مکان سے باغ سے اولاد سے اور دس ہی اس کو مرض ہیں کینہ حسد تکبر وغیرہ تو سب کا بالتفصیل علیحدہ علیحدہ معالجہ کیا جاوے اس کے لئے عمر نوح چاہیے اور بیخ کنی ان امراض کی نہ ہوگی اس مشقت کو دیکھ کر بالہام حق پچھلے بزرگوں نے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ /1 توجہ کا مرکز /2 مخلوق سے تعلقات /3 اللہ تعالیٰ کے ماسوا سے بے تعلق ہوجانا