ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
سے جدا اور نرالا ہے ۔ غربا کو وہ گویا انسانیت سے ہی خارج سمجھتے ہیں لیکن اس گئے گزرے وقت میں بھی اگر اس کا کچھ اثر باقی ہے تو اللہ والوں میں ۔ حضرت گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے یہاں ایک بڑے عہدے دار کوئی شخص مہمان آئے جب کھانے کا وقت ہوا تو حضرت نے اپنے ساتھ ان کو بٹھلایا کیونکہ وہ بڑے آدمی سمجھے جاتے تھے ان کو ساتھ بیٹھا دیکھ کر دوسرے غریب طلبہ مہمان پیچھے کو ہٹے حضرت مولانا نے فرمایا کہ صاحبو آپ لوگ کیوں ہٹ گئے کیا اس وجہ سے کہ ایک عہدہ دار میرے ساتھ بیٹھا ہے خوب سمجھ لیجئے کہ آپ لوگ میرے عزیز ہیں ۔ میں جس قدر آپ کو معزز سمجھتا ہوں اس کے سامنے ان کی کچھ بھی وقعت نہیں چنانچہ سب غریب طلباء کو بی ساتھ بٹھلا کر کھلایا شاید اس کسی کو شبہ ہو کہ مولانا نے اپنی شان ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کیوں کی وہ اسلام سے پھر گیا قصاص نہ لیتے تو کیا ہو جاتا مگر یہ شبہ وہ ہی کرسکتا ہے جس کی نظر میں اسلام کی وقعت نہیں اگر آپ ایسا کرتے تو اسلام کی بنیاد سست ہو جاتی کیونکہ یہی تو وہ بات ہے جو یہود و نصاری نے اختیار کر لی تھی کہ جب ان میں سے کسئ معزز آدمی نے زنا کیا تو اس کو صرف رسوا کر دیتےاور سنگسار نہ کرتے اور غریب آدمی زنا کرتا تو اس پر حد جاری کرتے یعنی پتھروں سےمار ڈالتے ۔ حضرت عمر نے اسلامی حکم کی وقعت کےسامنے اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی ایک ایک جبلہ کیا ہزار جبلہ جیسے باوجاہت ہوتے جب بجی آپ اسلامی حم کو نہ بدلتے اور نہ بدنے کا آپ کو کوئی حق تھا دوسرا یہ کہ اس وقت تو ایک جبلہ ہی مرتد ہوا مگر ہزاروں عقلاء کی نظر میں اسلام کی وقعت قائم ہو گئی کہ اسلام میں مظلوم ک اتنی رعایت ہے کہ اس پر بڑے سے بڑا معزز بھی ظلم کرے تو اس سے بدلہ لیا جاتا ہے ۔ جس طرح ایک معمولی آدمی سے اور اگر آپ اس کی رعایت کر جاتے تو ممکن تھا کہ جبلہ اسلام پر قائم رہ جاتا مگر ہزاروں عقلاء خلیفہ کے اس فیصلہ کو بری نظر سے دیکھتے اور اسلام سے بدگمان ہو جاتے رہا کسی کا اسلام میں رہنا یا نکل جانا اس کی اسلام میں ذرا پروا نہیں جو اسلام لاتا ہے اپنے فائدے کے واسطے کسی پر کیا احسان ہے ۔ فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر انا اعتدنا للظلمین نارا احاط بھم سرادقھا و ان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمھل یشوی الوجوہ بئس الشراب و ساءت مرتفقا رہا یہ کہ آپ نے اس کی باتیں سن کر فرمایا کہ تم نے شرائط قبول کر لی ہوتیں تو آپ کی شفقت کی دلیل ہے کہ آپ کو اس مرتد ہونے سے اس وجہ سے صدمہ ہوا تھا کہ جنت کی طرف آکر پھر دوزخ کہطرف چلا گیا ۔ نیز یہ کہ جو شخص اسلام لانا چاہے اس کسی قدر تالیف قلب مناسب ہے البتہ جو اسلام لا چکے اس کی تالیف قلب کی ضرورت نہیں اس لئے پہلی بار آپ نے رعایت نہ فرمائی کیونکہ وہ اسلام کا مدعی تھا اور اس وقت رعایت کرنا چاہی کیونکہ اسلام پھر قبول کرنا چاہتا تھا اور اس حدیث میں جو ہے اقیلوا ذوی الھیئاٰت عثراتھم یہ ان حقوق میں ہے جن کی معافی کا خود اختیار رکھتا ہو ۔ مثلا اس صورت میں وہ صاحب معاملہ معاف کر دیتا یا حقوق اللہ میں جو غیر حدود ہوں حاکم ہی معاف کر دے اور وہ بھی استحباب کے لئے ہے اور لفظ عثرات مشیر ہے کہ اس کا صدور خطاء ہو لجاجا و استکبارا و ظلما نہ ہو ۔ جیسا اس واقعہ میں ہوا تھا ۔ فقط ظفر احمد عثمانی