ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
کے وقت یا تو آدمی کی عزت کی جاتی ہے یا ذلت یعنی کامیابی پر عزت ناکامی پر ذلت ) خوب کہا ہے ؎ صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے ( صوفی اس وقت تک صاف دل نہیں ہو سکا جب تک شراب عشق کا جام نہ پی لے بہت سفر ہونا ضروری ہے تاکہ خام پکا بن جاوے ۔ ) چنانچہ جبلہ کا امتحان ہوا اور وہ اس میں ناکام ثابت ہوا یعنی اس نے کہا کہ اچھا مجھے ایک دن کی مہلت ہو سکتی ہے حضرت عمر نے فرمایا ہوسکتی ہے اگر یہ شخص مہلت دے صاحب حق سے پوچھا گیا وہ بیچارہ اس قدر نیک دل تھا کہ اس نے اجازت دے دی جبلہ رات کو موقع پا کر اٹھ بھاگا اور روومیوں سے جا ملا اور بدستور سابق نصرانی ہوگیا دیکھئے اس کو طلب صادق اور محبت واقعی دین سے نہ تھی کہ ذرا وہمی ذلت کے خوف سے دین چھوڑ دیا جس کا نتیجہ ابدالآباد کی ذلت ہے ۔ ادھر حضرت عمر کو دیکھئے کہ ذرا پرواہ نہیں کی کہ یہ امیر ہے دوسرا غریب ادھر اس کو دیکھئے کہ ذرا سی تکلیف نفس پر گواراہ نہ کر سکا ایسے لوگ ہیں کہ وہ اتباع شریعت محض نفع دنیاوی کیلئے کرتے ہیں لیکن جو خدا کے محض بندے ہیں ان کی یہ حالت ہے کہ ان پر کچھ بھی گزر جاوے مگر ان کو حق کے مقابلہ میں سب ہیچ نظر آتے ہیں ۔ ؎ کشند از برائے دلے بارہا خورند از برائے گلے خارہا ( ایک دل کی وجہ سے بہت سے بوجھ کھینچتے ہیں ایک پھول کے لئے بپت سے کانٹے کھاتے ہیں ۔ ) اور پھر چاہے طلب اور جستجو میں عمر بھی ختم ہو جائے مگر گھبراتے اکتاتے نہیں کیونکہ ان کی طلب صادق ہوتی ہے اور ان کو معلوم ہوتا ہے کہ محبوب اور مطلوب کون ہے وہ زبان حال سے یوں کہتے ہیں ؎ طلب گار باید صبور و حمول کہ نشینیدہ ام کیمیا گر ملول ( طلب والے کو تو بہت صبر اور تحمل کرنے والا ہونا چاہیے کیونکہ میں نے کسی کیمیا والے کو اکتا جانے والا نہیں سنا )