ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
کی تسلی فرمائی یعنی یہ ضرورت نہیں کہ اس درجہ میں عارضی 1؎ طور پر پہنچنے کے لئے اسی درجہ کے اعمال کی ضرورت ہو ۔ صرف اتباع اور محبت نبی کافی ہے جیسے دربار شاہی میں خدمت گار محض معیت و خدمت شاہ کی وجہ سے دیگر رؤسا سے پہلے پہنچتا ہے اس لئے مع الذین ( انعام الہی والوں کے ساتھ ) فرمایا آگے ذالک الفضل ( یہ محض فضل و کرم ہے ) میں تصریح بھی فرما دی ہے کہ اس کو اپنے اعمال کا اثر مت سمجھنا یہ محض فضل ہے اور واقع میں اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ ہمارا دین اور ایمان ہماری دنیا اور سب سامان ہماری نماز ہمارا روزہ ہمارا ثواب درجات جو کچھ بھی ہے سب حضور ﷺ ہی کا طفیل ہے چنانچہ ان آیات کے شان نزول کے انضمام سے صاف معلوم ہوتا ہے جن میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ذالک الفضل من اللہ و کفی باللہ علیما ( یہ محض اللہ تعالی کا فخل و کرم ہے اور اللہ تعالی سب کچھ جاننے والے کافی ہیں ) اس کا یا تو یہ مطلب ہے کہ اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں یہ محض فضل خداوندی ہے کہ تم کو ایک بہانہ محبت سے بازیابی کہ دولت نصیب ہو گی اور یا یہ مطلب ہے ذالک الفضل سے بعض مغلوب 1؎ الیاس لوگوں کی نا امیدی دور کرنا ہے کہ شاید کسی کو یہ خیال ہو جاوے کہ ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ ہم اس درجہ تک پہنچ سکیں تو اس کی نسبت ارشاد ہوتا ہے کہ اگرچہ تم اس قابل نہیں لیکن نعمت تمہارے اعمال کی جزا نہیں ہے کہ تم ان پر نظر کر کے اس نعمت سے مایوس ہو جاؤ یہ تو محض خدا تعالی کا فضل ہے ۔ جس کے لئے تمہارے اعمال کامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سبحان اللہ قرآن پاک بھی کیا عجب چیز ہے کہ دو متعارض شبھے ایک عجب 2؎ دوسرا یاس اور ایک جملہ میں دونوں کا جواب خواہ یوں کہہ لو ، خواہ یوں کہہ لو ؎ بہار عالم حسنش دل و جاں تازہ میدارد برنگ اصحاب صورت راہ ببوار باب معنی را ( ان کے حسن کے عالم کی بہار دل اور روح دونوں کو ترو تازہ رکھتی ہے ۔ صورت پسندوں کو رنگ سے معنے کے طالبوں کی خوشبو سے ) ہر مذاق ہر طبیعت ہر رنگ کا علاج قرآن میں موجود ہے ۔ پس روایت ثوبان رضی اللہ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ جن پر نا امیدی غالب ہو ۔ 2؎ خود بینی دوسرا نا امیدی ۔