ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
ایک خلال اتنا قیمتی ہے کہ دنیا تمام اس پر فدا اور دنیا تو ان کو کیا مطلوب ہوتی ۔ عالم آخرت کی طرف بھی ان حضرات کی توجہ صرف اس لئے ہے کہ وہ ان کے مطلوب یعنی رضائے حق کا محل ہے ورنہ ان کی یہ شان ہے کہ ؎ با تو دوزخ جنت است اے جانفزا بے تو جنت دوزخ است اے دلربا ( اے دل فزا تیرے ساتھ میں تو دوزخ بھی جنت ہے اور اے دل ربا تیرے بغیر جنت بھی دوزخ ہے ) اور مولانا یہ بھی فرماتے ہیں ؎ گفت مشوقے بعاشق کای فتے تو بغربت دیدہ بس شہر ہا ( ایک معشوق نے عاشق سے کہا کہ اے نوجوان تو نے سفروں میں بہت سے شہر دیکھے ہیں ) پس کدامی شہر از آنہا خو شر تست گفت آں شہرے کہ دردے دلبر است ( تو ان میں سے کون سا شہر سب سے اچھا ہے بولا وہی شہر کہ جس میں دلبر ہے ) جنگل میں اگر محبوب کا ساتھ ہو جاوے تو ہزار آبادی سے بڑھ کر ہے ۔ شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ یہ اقوال غلبہ حالات و ولولہ محبت کے ہیں کوئی واقعی تحقیق نہیں ہے تو یاد رکھو اس کے بارہ میں نص موجود ہے حدیث میں ایک صحابی حضرت ثوبان کا واقعہ یاد آیا کہ وہ حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ اگر ہم جنت میں گئے بھی تو ہم کو وہ درجہ تو نصیب نہیں ہوسکتا جو درجہ آپ کا ہو گا اور جب ہم اس درجہ میں نہ پہنچ سکیں گے تو آپ کے دیدار سے محروم رہیں گے اور جب آپ کا دیدار نصیب نہ ہوگا تو ہم جنت کو لے کر کیا کریں گے ۔ حضور ﷺ نے یہ سن سکوت فرمایا ۔ آخر وحی نازل ہوئی کہ من یطع اللہ و الرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم الاٰیۃ ( جو لوگ اللہ و رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں بس یہی لوگ ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا ہے حضرات انبیاء صدیقین شہداء صالحین ) جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ اور عارضی طور پر اس لئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے درجہ میں استقرارا و مقاما کون جا سکتا ہے ۔ البتہ زیارت کے لئے رسائی ہوا کرے گی ۔ جس طرح دنیا میں مسکن ہر ایک کا جدا ہوتا ہے لیکن ملاقات کے لئے دوسرا بھی آ جاتا ہے ۔ 12؎ منہ