ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
|
عنہ سے بھی یہ بات بالکل صاف معلوم ہو گئی ہے کہ با تو دوزخ جنت است اے جانفزا بے تو جنت دوزخ است اے دلربا ( اے جانفزا تیرے ساتھ میں تو دوزخ بھی جنت اور اے دلربا تیرے بغیر جنت بھی دوزخ ہے ) کیونکہ ان کے اس خیال پر انکار نہیں فرمایا گیا بلکہ تسلیم کر کے تسلی کی گئی ۔ غرض یہ مضمون بلکل سنت کے موافق ہے نرا نکتہ تصوف یا شاعرانہ نہیں سو یہ ہے ان حضرات کی شان کہ دونوں عالم بھی ان کے نزدیک خدا تعالی کی رضا یا نبی کریم ﷺ کی لقاء کی برابر نہیں خوب کہا ہے ؎ قیمت خود ہر دو عالم گفتہء نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز ( تم نے اپنی قیمت دونوں جہان بتائی ہے تو ابھی سستا پن ہے نرخ اور بلند کرو جو شان کے بطابق ہو ) محبت اور غیرت کی تو خاصیت ہی ہےکہ جب یہ بڑھ جاتی ہے تو سب کچھ چھوٹ جاتا ہے ۔ حضرت ابراھیم بن ادھم نے غیرت ہی میں سلطنت چھوڑ دی تھی اور وجہ اس سب کی یہ ہوتی ہے کہ ایک حالت میں دو طرف توجہ کرنی پڑتی ہے ۔ اور یہ ممکن نہیں 1؎ اس واسطے مجبورا ایک طرف کی توجہ کو ترک کر دینا پڑے گا ۔ اب رہی یہ بات کہ کس جانب کو ترک کیا جاوے تو ظاہر ہے کہ توجہ الی اللہ کی دولت تو قابل ترک نہیں لہذا دنیا ہی پر لات مار دیتے ہیں خوب کہا ہے ؎ بفراغ دل زمانے نظرے بماہ روئے بہ از آنکہ چتر شاہی ہمہ روز ہائے ہوئے ( دل خالی ہونے کے ساتھ ایک ماہ رو کی طرف کچھ دیر نظر کا میسر آنا اس سے لاکھ درجے بہتر ہے کہ سر پر شاہی چھتر ہو اور سارے دن شور و شغب ہو ) حضرت ابراھیم بن ادھم نے اسی کے تحصیل کے لئے سلطنت پر لات مار دی ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 1؎ پوری طرح ورنہ اگر ہوگی تو دونوں طرف ناقص ہو گی اور محبت کی غیرت اس کو قبول نہیں کر سکتی کہ ناقص ہو ۔