ملفوظات حکیم الامت جلد 27 - 28 - یونیکوڈ |
ضرور ہے کہ یہ خاص بلوغ اس وقت حاصل ہوگا کہ تلاوت و دیکر اعمال میں ہوائے نفسانی کا دخل نہ ہو بلکہ مطلقا / 1 اس ہواء نفسانی کا اتباع چھوڑ دو اور اطاعت خدا اور رسول میں سر گرم ہوجاؤ کہ طریقت کا بلوغ یہی ہے ؎ خلق اطفا لند جز مست خدا نیست بالغ جز رہیدہ از ہوا (ساری مخلوق نا بالغ بچے ہیں سوائے مرد خدا کے اور کوئی بھی بالغ نہیں سوائے اس کے جو خواہشات سے الگ ہوگیا ہو ) اور بعینہ یہی غلطی اکثر اہل سلوک کو ہوتی ہے کہ وہ ابتداء میں یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو ذکر میں لذت آنے لگے اور جب لذت حاصل نہیں ہوتی تو پریشان ہوتے ہیں - اور بعض اوقات ذکر کو چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ سخت غلطی ہے کیونکہ ذکر میں لذت آنے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں کہ ذکر کی زیادتی کرے - جس قدر ذکر زیادہ ہوگا قلب زیادہ /2 معتاد ہوگا - دوسرے خیالات کمزور پڑیں گے ذکر میں خود بخود لزت حاصل ہوگی - اس کی مثال یوں سمجھئے کہ فن شاعری میں جو ملکہ پیدا ہوجاتا ہے کہ ایک شعر سن لیا اور طبیعت تلملا گئی ایک عمدہ بات کا کان میں پڑی کہ چہرہ کھل گیا - آخر یہ بات کب پیدا ہوتی ہے اور کیونکہ پیدا ہوتی ہے ظاہر ہے کہ ایک مدت کے بعد اور کثرت مشق ومماست /3 سے ہوتی ہے اور ابتداء میں ہرگز یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ اول تو محض مشقفت ہی ہوتی ہے - دیکھئے بچہ کو مکتب میں بٹھلاتے ہیں سبق فارسی کا پڑھاتے ہیں مارتے ہیں پکڑ لاتے ہیں - اسی طرح جب سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے اس کو زبان دانی وسخن فہمی کا ایسا سیلقہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کلام لطیف سن کر کیسا کچھ محفوظ ہوتا ہے پس کیا کسی شخص نے محض اس وجہ سے کہ ہم کو غالب اور مومن کا ساوجد کیوں نہیں پیدا ہوتا - شاعری کی مشو چھوڑ دی ہے یا کسی شاگرد نے اپنے استاد سے یہ فمرائش کی ہے کہ میں اس وقت شاعری شروع کروں گا کہ جب آپ کی طرح مجھے شعر میں لطف آنے لگے گا - صاحبو کیا قرآن شریف کی تلاوت اتنی بھی ضروری اور مرغوب نہیں جتنی فارسی اور شاعری کی تحصیل - صاحبو جس طرح اس مثال میں ظاہری کیفیت میں ایک وقت وہ تھا کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ /1 ہر بات میں / 2 عادت والا / 3 بہت استعمال و برتنے سے